قرآن و سنت کی روشنی میں کسی کے اعمال دوسرے کے کام نہیں آ سکتے، ہر انسان اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ، وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ
کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور انسان کے لیے وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی۔
(النجم : 38-39)
اس سے واضح ہے کہ نجات یا ہلاکت کا مدار انسان کے اپنے ایمان اور عمل پر ہے، کسی اور کے عمل سے اس کا بوجھ کم نہیں ہوگا۔
نبی ﷺ نے بھی فرمایا
يا فاطمة بنت محمد سليني من مالي ما شئت، لا أغني عنك من الله شيئا
اے محمد ﷺ کی بیٹی فاطمہ! مجھ سے میرے مال میں سے جو چاہو مانگ لو، لیکن میں اللہ کے سامنے تمہارے کسی کام نہیں آ سکوں گا۔
(صحیح بخاری، حدیث 2753)
البتہ یہ ہے کہ دعا، صدقہ جاریہ، یا اولاد کی نیکیاں مرنے والے کے لیے فائدہ مند ہوتی ہیں جیسا کہ حدیث میں آیا ہے
إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلاثٍ: صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ
جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے، مگر تین چیزوں کا ثواب اس کو پہنچتا رہتا ہے: (1) صدقہ جاریہ، (2) وہ علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں، (3) نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔
(صحیح مسلم، حدیث 1631)
یعنی اصول یہی ہے کہ اعمال ذاتی ہوتے ہیں، دوسرے کے اعمال نجات نہیں دلا سکتے، البتہ دعا اور صدقہ جاریہ کے۔