سلفی حضرات کا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ وہ صرف “قرآن و سنت” سے عقیدہ لیتے ہیں، مگر حقیقت میں ان کے عقائد ان کے اسلاف و فقہاء کی فہم پر مبنی ہوتے ہیں۔ اگر واقعی وہ صرف قرآن و حدیث کو براہِ راست لیتے تو ان کے اندر بھی اختلاف نہ ہوتا، لیکن چونکہ ہر گروہ اپنے اپنے اسلاف کے فہم پر چلتا ہے، جیسے سلفی (احمد بن حنبل، ابن تیمیہ، ابن قیم، محمد بن عبدالوھاب وغیرہ) اس لیے یہ بھی ایک طرح کی تقلید ہے، مگر وہ اس کا انکار کرتے ہیں۔
قرآن کہتا ہے
فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ
اور اگر تم کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ۔
(النساء 59)
یعنی اختلاف کو ختم کرنے کے لیے براہِ راست قرآن و سنت کی طرف رجوع ہے، نہ کہ صرف اپنے پسندیدہ اسلاف کی رائے پر جم جانا۔ جیسے کہ قرآن کا واضح بیان ہے کہ مرنے کے بعد قیامت سے پہلے روح لوٹ کر نہیں آتی۔
ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَيِّتُوْنَثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ
پھر یقیناً تم اس کے بعد مرنے والے ہو۔ پھر بےشک تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔
(المومنون:15، 16)
اسکے برعکس احمد بن حنبل کے قول کو دلیل لیتے ہیں۔ احمد بن حنبل نے کہا کہ
بمنکر و نکیر،وعذاب القبر،والایمان،بملک الموت یقبض الارواح: ثم ترد فی الاجساد فی القبور،فیسالون عن الایمان والتوحید
منکر نکیر ،عذاب قبر،ملک الموت کے ارواح کو قبض کرنے اور پھر ارواح کے قبروں میں جسموں کی طرف لوٹائے جانے پر ایمان ضروری ہے اور اس پر بھی ایمان لانا لازم ہے کہ قبر میں ایمان و توحید کے بارے میں سوال ہوتا ہے۔
(طبقات حنابلہ :جزاول:صفحہ نمبر342)
باوجود علم کہ احمد بن حنبل کے عقیدے کو درست ماننا سلفی فرقے کا شیوہ ہے۔ اس لیے یہ بات واضح ہے کہ “سلفی صرف قرآن و حدیث سے عقیدہ لیتے ہیں” ایک دعویٰ ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی اپنے مخصوص اسلاف کی تقلید کرتے ہیں، جیسا کہ دوسرے مسالک کرتے ہیں۔