قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ جنت میں داخلے کے لیے ایمان بنیادی شرط ہے۔ جو شخص ایمان کے بغیر دنیا سے رخصت ہوتا ہے، اس کے لیے جنت کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔
إِنَّ ٱلَّذِينَ كَذَّبُوا۟ بِـَٔايَٰتِنَا وَٱسْتَكْبَرُوا۟ عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَٰبُ ٱلسَّمَآءِ وَلَا يَدْخُلُونَ ٱلْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ ٱلْجَمَلُ فِى سَمِّ ٱلْخِيَاطِ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِى ٱلْمُجْرِمِينَ
بے شک جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا، ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو جائے (یعنی ناممکن ہے)۔ اور ہم مجرموں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔
(الأعراف – 40)
ایمان کے بغیر جنت میں داخل ہونا ناممکن ہے، بالکل اسی طرح جیسے اونٹ کا سوئی کے ناکے میں داخل ہونا ناممکن ہے۔
نبی ﷺ کے چچا ابو طالب نے نبی کی بھرپور مدد کی، لیکن چونکہ ایمان نہیں لائے، اس لیے وہ جنت میں نہیں جا سکیں گے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
إِنَّهُ فِي ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارِ، وَلَوْلَا أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرَكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ
وہ (ابو طالب) آگ کی ایک ہلکی تہہ میں ہوں گے، اور اگر میری شفاعت نہ ہوتی تو وہ جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوتے۔
(صحیح مسلم 209)
اگر کوئی شخص ایمان نہ لائے، چاہے وہ نبی کا قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، جنت میں نہیں جا سکتا۔ ایمان ہی جنت میں داخلے کا سبب ہے۔