جی ہاں، قرآن مجید واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ جن کو اللہ کے سوا پکارا جاتا ہے، وہ بھی تمہاری ہی طرح کے بندے (مخلوق) ہیں۔ ان میں کوئی ایسی طاقت یا اختیار نہیں ہوتا کہ وہ تمہاری دعائیں سن سکیں یا تمہیں نفع و نقصان پہنچا سکیں۔
إِنَّ ٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ ۖ فَٱدْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا۟ لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ
یقیناً جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، وہ تمہاری ہی طرح بندے ہیں، تم انہیں پکارو، پھر وہ تمہاری دعا کا جواب دیں اگر تم سچے ہو۔
(الاعراف – 194)
لوگوں نے اللہ کے سوا بہت سے بندوں کو پکارا ہے۔ جیسے فرشتوں کو، نبیوں کو، صالحین اور اولیاء کو، حتیٰ کہ بعض نے عیسیٰ علیہ السلام کو “اللہ کا بیٹا” کہہ کر ان سے دعائیں مانگیں، بعض نے علیؓ، فاطمہؓ، امام حسینؓ یا عبدالقادر جیلانی کو فریاد کے لیے پکارا، اور ان کے نام کی نذر و نیاز دی۔ برصغیر میں بعض نے خواجہ معین الدین چشتی، علی ہجویری کو داتا گنج بخش کہہ کر، اور دیگر صوفیاء کو “مشکل کشا” اور “حاجت روا” مانا، اور ان کی قبروں پر جا کر دعائیں کیں۔
حالانکہ یہ سب ہم جیسے انسان ہی تھے مگر بعد میں آنے والوں نے ان کی تعظیم میں غلو کیا اور انہیں اس مقام پر پہنچا دیا جو صرف اللہ کا حق تھا۔ یہی اصل شرک ہے بندوں کو وہ مقام دینا جو صرف رب کا ہے، اور ان سے وہ مانگنا جو صرف خالق کے اختیار میں ہے۔
جب وہ ہماری طرح کے ہی بندے ہیں۔ جو خود اپنی حاجت پوری نہیں کر سکتے، وہ دوسروں کی
کیا مدد کریں گے؟ اللہ کے سوا کسی کو بھی مافوق الاسباب طاقت دینا یا اس سے دعا مانگنا عقیدے کا فساد ہے۔