قرآنِ مجید میں عہد توڑنے والوں کو منافق، بدعہد، اور فساد پھیلانے والے قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عہد اور وعدہ کو ایک مقدس ذمہ داری بتایا ہے، اور اس کو پورا نہ کرنا ظلم، خیانت اور اللہ سے بے وفائی کے مترادف ہے۔ قرآن ہمیں بار بار تاکید کرتا ہے کہ جو وعدہ یا عہد ہم اللہ، اس کے بندوں یا اپنی ذات سے کرتے ہیں، وہ ایک امانت ہے جس کا حساب ضرور لیا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَأَوْفُوا۟ بِعَهْدِ ٱللَّهِ إِذَا عَـٰهَدتُّمْ وَلَا تَنقُضُوا ٱلْأَيْمَـٰنَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ ٱللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ
اور اللہ کے عہد کو پورا کرو جب تم (اس سے) عہد کرو، اور قسموں کو پختہ کرنے کے بعد نہ توڑو، حالانکہ تم نے اللہ کو اپنے اوپر گواہ بنایا ہے۔ بے شک اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔
( النحل 91)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ جب کوئی شخص وعدہ یا معاہدہ کرتا ہے، تو دراصل وہ اللہ کو گواہ بناتا ہے۔ اسے توڑنا صرف انسانوں کے ساتھ بے وفائی نہیں بلکہ اللہ کی نگرانی کو جھٹلانا ہے۔ ایسے اعمال ایمان کی کمزوری کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
ٱلَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ ٱللَّهِ مِنۢ بَعْدِ مِيثَـٰقِهِۦ وَيَقْطَعُونَ مَآ أَمَرَ ٱللَّهُ بِهِۦٓ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِى ٱلْأَرْضِ ۚ أُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْخَـٰسِرُونَ
جو لوگ اللہ کے عہد کو پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں، اور ان تعلقات کو کاٹتے ہیں جنہیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا، اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔
(ٓالبقرہ 27)
یہ آیت عہد شکنی کو فساد اور قطع رحمی کے ساتھ جوڑتی ہے، جو اللہ کے نزدیک بڑے جرائم میں شمار ہوتے ہیں۔ عہد توڑنا نہ صرف فردی سطح پر بددیانتی ہے بلکہ یہ اجتماعی فساد اور بداعتمادی کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کے مطابق عہد شکنی نہ صرف ایک اخلاقی گراوٹ ہے بلکہ یہ ایمان کی کمزوری، اللہ سے بے خوفی، اور معاشرتی فساد کی علامت بھی ہے۔ مؤمن وہ ہے جو عہد کی پاسداری، وعدے کی تکمیل، اور امانت میں دیانت کو ایمان کا تقاضا سمجھے۔ قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہر وعدہ اور ہر عہد کا حساب اللہ کے ہاں ضرور ہوگا، اور نجات صرف انہی کے لیے ہے جو اپنی زبان، عمل، اور نیت میں سچے اور وفادار ہوں۔