|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

انبیاء علیہ السلام نے بتوں کے خلاف کیسا موقف اختیار کیا؟

انبیاء علیہم السلام نے بتوں اور شرک کے خلاف نہایت واضح، بے خوف اور دوٹوک موقف اختیار کیا۔ ان کی دعوت کا مرکزی نکتہ یہی تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے، اور تمام جھوٹے معبودوں، بتوں اور خودساختہ الہٰوں کا انکار کیا جائے۔ انبیاء نے نہ صرف قول سے بلکہ عمل سے بھی بت پرستی کے خلاف بغاوت کی، چاہے اس کی پاداش میں انہیں جلاوطن ہونا پڑا، جیل جانا پڑا یا آگ میں ڈال دیا گیا۔ مگر وہ باطل کے سامنے نہ جھکے، نہ خاموش ہوئے۔

إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِۦ مَا هَـٰذِهِ ٱلتَّمَاثِيلُ ٱلَّتِىٓ أَنتُمْ لَهَا عَـٰكِفُونَ۝
قَالُوا۟ وَجَدْنَآ ءَابَآءَنَا لَهَا عَـٰبِدِينَ ۝ قَالَ لَقَدْ كُنتُمْ أَنتُمْ وَءَابَآؤُكُمْ فِى ضَلَـٰلٍۢ مُّبِينٍ۝
جب اُس (ابراہیم علیہ السلام) نے اپنے باپ اور قوم سے کہا یہ کیسی مورتیاں ہیں جن پر تم جمے بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی پوجا کرتے پایا۔ ابراہیم نے کہا یقیناً تم اور تمہارے باپ دادا کھلی گمراہی میں ہو۔
(الأنبياء 52–54)

ابراہیم علیہ السلام نے نہایت بہادری سے اپنی قوم کے باطل عقائد کو چیلنج کیا، اور ان کے خودساختہ معبودوں کو باطل قرار دیا۔ یہی جرأت دیگر انبیاء جیسے نوح علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام، ہود علیہ السلام، صالح علیہ السلام، اور بالآخر محمد ﷺ کی دعوت میں بھی نظر آتی ہے۔ انبیاء نے ہمیشہ شرک کو سب سے بڑی گمراہی کہا اور اللہ کی وحدانیت کی دعوت دی۔

بتوں کے خلاف انبیاء کا موقف صرف زبانی احتجاج تک محدود نہ تھا، بلکہ انہوں نے ان باطل مظاہر کو توڑا، ترک کیا، اور ان کے ماننے والوں کو کھری کھری سنائیں۔ ان کا مشن محض مذہبی عبادت کی تطہیر نہ تھا بلکہ فکری، معاشرتی، اور روحانی انقلاب لانا تھا۔

انبیاء کی دعوت میں بتوں کے خلاف موقف صرف اختلاف نہیں، بلکہ ایک اعلانِ جنگ تھا۔ باطل معبودوں کے خلاف، جھوٹے نظاموں کے خلاف، اور انسانی غلامی کے خلاف۔ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ حقیقی دین وہی ہے جو توحید پر قائم ہو اور ہر باطل معبود کو رد کرے، چاہے وہ مٹی کا بت ہو یا طاقت کا نشہ۔ انبیاء نے اسی لیے آفاقی پیغام دیا
لا إله إلا الله کوئی معبود نہیں مگر اللہ۔

مزید سوال کریں / اپنی رائے دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔