اسلام ایک اجتماعی دین ہے جو فرد کی اصلاح کے ساتھ ساتھ معاشرے کی تعمیر کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ مسلمانوں کو جماعت اور نظم و اتحاد کی پابندی کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ وہ اختلاف، کمزوری اور تفرقہ سے بچ کر ایک مضبوط اور منظم امت بن سکیں۔ نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی اجتماعی نظام، جماعتی قیادت، مشورے، اور نظم و ضبط کا نمونہ ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلَّذِينَ يُقَـٰتِلُونَ فِى سَبِيلِهِۦ صَفًّۭا كَأَنَّهُم بُنْيَـٰنٌۭ مَّرْصُوصٌۭ
بے شک اللہ اُن لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں جیسے وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔
( الصف 4)
یہ آیت مسلمانوں کو نظم و ترتیب اور اتحاد کی دعوت دیتی ہے، کہ وہ اللہ کے دین کے لیے ایسی جماعت بنیں جس میں انفرادیت نہیں، بلکہ اجتماعیت، قربانی، اور مرکزیت ہو۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا
جماعت پر لازم رہو، اور تفرقے سے بچو، کیونکہ شیطان ایک کے ساتھ ہوتا ہے اور دو سے دور ہوتا ہے۔
(جامع الترمذی، حدیث 2165)
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ نظم اور جماعت میں شیطان کے خلاف قوت ہے، اور تفرقے میں کمزوری۔
صحابہ کرامؓ ہر موقع پر نبی ﷺ کی قیادت میں صف باندھ کر صلوۃ ادا کرتے، جنگ میں منظم ہوتے، اور دین کے ہر شعبے میں جماعتی ڈھانچے کے پابند ہوتے۔ یہ نظم ہی تھا جس نے کمزور مسلمانوں کو دنیا کی عظیم قوت بنا دیا۔
اسلام میں صلوۃ باجماعت، جمعہ، حج، زکوٰۃ کا نظم، اور خلافت کا تصور اس بات کے مظہر ہیں کہ دین صرف فردی معاملہ نہیں بلکہ ایک جماعتی و اجتماعی ذمہ داری بھی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کا نظم، اطاعت، اور اتحاد، دینی تقاضا بھی ہے اور کامیابی کی شرط بھی۔