|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

اللہ نے “دعوت و تبلیغ” کا کیا طریقہ سکھایا ہے؟

قرآنِ مجید نے دعوتِ دین کا انداز نہایت حکیمانہ، نرم، اور دلوں کو موہ لینے والا سکھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو اور ان کے ذریعے پوری امت کو دعوت دین کے ایسے اصول دیے جو ہر زمانے میں مؤثر اور نفع بخش ہیں۔ دعوت کا مقصد لوگوں کو حق کی طرف لانا ہے، نہ کہ جیتنا یا سبقت لے جانا ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
ٱدْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِٱلْحِكْمَةِ وَٱلْمَوْعِظَةِ ٱلْحَسَنَةِ ۖ وَجَـٰدِلْهُم بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ
“اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ، اور ان سے بہترین طریقے سے بحث کرو۔”
( النحل: 125)

اس آیت کی روشنی میں دعوت کے تین بنیادی اصول ہیں
:حکمت کے ساتھ دعوت دینا
یعنی عقل، موقع، حال اور مزاج کو دیکھتے ہوئے مؤثر اور سنجیدہ بات کرنا۔ نبی ﷺ جب کسی قوم کو دعوت دیتے تو ان کی عقل، رسم و رواج اور سوالات کو سمجھ کر بات کرتے۔

:نرمی اور اچھی نصیحت کے ساتھ
یعنی دعوت کا انداز زبردستی، سختی، طعن و تشنیع والا نہیں بلکہ خیرخواہی، شفقت اور دل نشین ہو۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں موجود ہے، اور نبی کریم ﷺ نے اس میں دعوتِ دین کے اسلوب اور حکمت کا نہایت جامع اصول بیان فرمایا ہے

نبی ﷺ نے فرمایا:
“بَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا، وَيَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا”
“بشارت دو، نفرت نہ دلاو، آسانی پیدا کرو، سختی نہ کرو۔”
(صحیح بخاری: 69، صحیح مسلم: 1732)

یہ ارشاد اُس وقت کا ہے جب نبی ﷺ نے معاذ بن جبلؓ کو یمن کی طرف دعوتِ اسلام کے لیے روانہ فرمایا۔ آپ ﷺ نے ان کو تاکید کی کہ دین کی دعوت رحمت، بشارت، اور نرمی کے ساتھ دینی ہے۔

دین کا اصل مزاج آسانی اور خوش خبری کا ہے۔ سختی، تنفیر اور شدت پسندی کو نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ جو داعی لوگوں کو دین سے دور کر دے، وہ سنتِ نبوی کے خلاف ہے۔

اسلام کی دعوت محبت، نرمی، اور حکمت سے دی جائے۔ اگر دین کو نفرت، سختی یا جھڑکنے کے انداز میں پیش کیا جائے تو وہ دعوت نہیں بلکہ روک بن جاتی ہے۔ نبی ﷺ کا اسلوب ہمیں سکھاتا ہے کہ لوگوں کو قریب لاؤ، دور نہ کرو۔

اچھے انداز میں مباحثہ
یعنی اگر دلیل یا سوال و جواب کی نوبت آئے تو صبر، نرمی اور عدل کے ساتھ بات کی جائے، نہ کہ غصے یا توہین سے۔

:نبی ﷺ اور انبیاء کی عملی مثال
موسیٰؑ کو فرعون جیسے ظالم کے پاس بھیجا گیا تو اللہ نے فرمایا
فَقُولَا لَهُۥ قَوْلًۭا لَّيِّنًۭا
“اس سے نرمی سے بات کرو” (طٰہٰ: 44)

دعوت دلوں کو جگاتی ہے، عقل کو روشن کرتی ہے، اور انسان کو اللہ سے جوڑتی ہے۔ اگر انداز توحیدی، مہذب، اور نرم ہو تو دلوں پر اثر ہوتا ہے، ورنہ ردعمل پیدا ہوتا ہے۔

قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ دعوت ایک عبادت ہے، اور اس میں حکمت، خیرخواہی اور تحمل ضروری ہے۔ توحید، عمل صالح، اور نرم دلی دعوت کے بنیادی ستون ہیں۔ اگر ہم اس قرآنی اصول کو اپنائیں تو نہ صرف دل بدلیں گے بلکہ معاشرہ بھی بدل سکتا ہے۔

مزید سوال کریں / اپنی رائے دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔