سورۃ بقرہ مدنی سورت ہے، اس میں 286 آیات ہیں جوچالیس رکوعات پرمشتمل ہیں۔مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ دوسرے نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے لحاظ سے یہ 87 ستاسی نمبر پر ہے۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں چونکہ اس سورۃ کی 67 نمبر آیت میں گائے سے متعلق ایک خاص موقع کا قصہ بیان ہوا ہے اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً بیشک اللہ حکم دیتا ہے تم(بنی اسرائیل) کو کہ ذبح کرو ایک گائے۔ اس لیے اسی مناسبت سے اس کا نام سورة البقرہ (یعنی وہ سورت جس میں گائے کا ذکر ہے) رکھا گیا۔یہ ایک قتل کا واقعہ ہے جن کی بنا پر بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس قتل کا راز فاش کردیا حالانکہ وہ قتل رات کی تاریکی میں لوگوں سے چھپ کر کیا گیا تھا مطلب یہ نیکی یا بدی تم کتنی بھی چھپ کر کرو اللہ کے علم میں ہے اور اللہ تعالیٰ اسے لوگوں پر ظاہر کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس لیے خلوت یا جلوت ہر وقت اور ہر جگہ اچھے کام ہی کرو تاکہ وہ کسی وقت ظاہر ہوجائیں اور لوگوں کے علم میں بھی آجائیں تو شرمندگی نہ ہو بلکہ اس کے احترام و وقار میں اضافہ ہی ہو اور بدی کتنی بھی چھپ کر کیوں نہ کی جائے اس کے فاش ہونے کا امکان ہے جس سے انسان کی بدنامی اور ذلت اور رسوائی ہوتی ہے۔
مقتول کے دوبارہ جی اٹھنے سے ثابت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ روز قیامت تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت کا اعلان فرما رہا ہے۔ قیامت والے دن دوبارہ مردوں کو زندہ ہونا منکرین قیامت کے لیے ہمیشہ حیرت کا باعث رہا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس مسئلے کو بھی قرآن کریم میں جگہ جگہ مختلف پیرائے میں بیان فرمایا ہے۔ سورة بقرہ میں ہی اللہ تعالیٰ نے اس کی پانچ مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک مثال ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ البقرہ 56 میں ہے۔ دوسری مثال یہی قصہ ہے۔ تیسری مثال آیت نمبر245 مُوْتُوْ ا ثُمَّ اَحْيَاھُمْ میں اور چوتھی آیت نمبر259 فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَـةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ اور پانچویں مثال آیت نمبر 260میں ابراہیم (علیہ السلام) کے طیور اربعہ ( چار پرندوں) کی ہے۔
سورۃ کی ابتدا الم سے ہوئی ہے، الف لام میم انہیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے، یعنی علیحدہ علیحدہ پڑھے جانے والے حروف ان کے معنی اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ البتہ نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ضرور فرمایا ہے میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف، میم ایک حرف اور لام ایک حرف ہر حرف پر ایک نیکی اورایک نیکی کا اجر دس گنا ہے۔(جامع ترمذی:جلد دوم:فضائل قرآن کا بیان:حدیث نمبر 837)
فضائل سورة البقرۃ :رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس گھر میں سورة البقرہ پڑھی جائے، شیطان اس گھر سے نکل جاتا ہے۔(صحیح مسلم:جلد اول: مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان:حدیث نمبر 1818) نیز آپ نے فرمایا : ‘ الزھراوین (دو جگمگانے والی سورتیں یعنی البقرہ اور آل عمران) پڑھا کرو۔ قیامت کے دن وہ اس حال میں آئیں گی جیسے وہ دو بادل یا دو سائبان یا پرندوں کے دو جھنڈ ہیں اور وہ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے (مغفرت کے لیے) جھگڑا کریں گی (لہٰذا) سورة البقرہ پڑھا کرو۔ اسے حاصل کرنا برکت اور چھوڑ دینا حسرت ہے اور باطل قوتیں (جادو وغیرہ) اس کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔
(صحیح مسلم:جلد اول:فضائل قرآن کا بیان :حدیث نمبر 1868)
:سورة فاتحہ کا سورۃ البقرہ سےربط
٭ سورة فاتحہ میں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ سے ہدایت کی درخواست کی گئی ہے اب سورة بقرہ کی ابتداء میں اس کی منظوری آگئی کہ یہ پوری کتاب سرچشمہ ہدایت ہے اور سیدھی راہ دکھاتی ہے اور پھر سورۃ میں ہدایت کا جامع تفصیل بیان کر دی گئی۔
٭ سورة فاتحہ میں ایک تو مومنین منعم علیھم کا ذکر تھا جو انبیاء شھداء وغیرہ تھے اور دو کافر فرقوں کا بیان تھا۔ دوسرا المغضوب علیھم جو یہود ہیں۔ تیسرا ضالین جو نصاری ہیں۔ یہاں سورة بقرہ کی ابتدا میں تین فرقوں کا ذکر ہے۔ (1) مومینن کا ذکر ھم المفلحون تک (2) ولھم عذاب عظیم تک دو آیتوں میں کفار ملحدین کا ذکر ہے (3) پھر دوسرے رکوع کی ابتدا سے آخر تک منافقین کا ذکر ہے۔ یہ بھی کافر ہیں جیسا کہ فرمایا وما ھم بمومنین۔
٭ سورة فاتحہ میں بندوں سے اِيَّاكَ نَعْبُدُکے ذریعے اللہ کی توحید کا اقرار لیا گیا ہے اور عبادت واستعانت کے اللہ کے ساتھ مخصوص ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔ سورة بقرہ میں اسی دعوئ توحید کو مختلف مقاصد کے پیش نظر تین جگہ ذکر کر کے ہر جگہ اسے دلیل عقلی سے واضح اور ثابت کیا گیا ہے۔ چنانچہ پہلے رکوع 2 کی ابتداء میں يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ سے دعویٰ پیش کیا اور پھر الَّذِىْ خَلَقَكُمْ سے رِزْقًا لَّكُمْ تک دلیل عقلی بیان کی۔ دوسری دفعہ رکوع 19 میں وَاِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ سے دعویٰ پیش کیا اور اس کے بعد اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ سے يَّعْقِلُوْنَ تک دلیل عقلی بیان کی۔ تیسری بار رکوع 34 میں اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ سے دعویٰ پیش کیا اور اس کے ساتھ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ سے الْعَلِيُّ الْعَظِيم تک عقلی دلیل پیش کی۔ دعوی توحید کو تین بار ذکر کرنے کا مقصد جدا جداہے۔ پہلے موقع پر شرک فی الدعاء کی نفی مقصود ہے۔ یعنی اللہ کے سوا غائبانہ دعاء اور پکار سننے والا، اور کوئی نہیں۔دوسرے مقام پر نذرونیاز اور منت میں شرک کی نفی مقصود ہے۔اور تیسری جگہ شفاعت قہری کی تردید مقصود ہے۔ یہود ونصاریٰ اور مشرکین عرب تین قسم کے شرک میں مبتلا تھے۔ (1) وہ انبیاء علیہم السلام، ملائکہ کرام اور اولیاء اللہ کو عالم الغیب اور با اختیار سمجھ کر پکارتے اور حاجات ومشکلات میں ان سے استعانت کرتے تھے (2) وہ اپنے مفروضوں معبودوں کو راضی رکھنے کے لیے ان کے نام کی نذریں منتیں، نیازیں اور چڑھاوے دے دیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے معبودوں کی یادگاریں قائم کی ہوئی تھیں اور ان کے نام کے استھان بنائے ہوئے تھے اور وہاں بصورت غلہ، نقدی یا جانور وغیرہ ان کے نام کے چڑھاوے چڑھائے جاتے تھے۔ ان کا اعتقاد تھا کہ اس طرح ہمارے معبود ہم سے خوش ہوجائیں گے اور ہمارے مال اور اولاد میں برکت دیں گے۔ یا اللہ سے برکت دلائیں گے (3) وہ اپنے معبودوں کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارشی بنا کر پیش کرتے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ بزرگان دین جن کی ہم عبادت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کو اس قدر محبوب اور پیارے ہیں کہ اللہ ان کی بات رد نہیں کرتا اور وہ جو مطالبہ کریں اللہ کو ماننا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں دعوائے توحید کا تین دفعہ ذکر فرما کر شرک کی تینوں اقسام کی نفی فرمادی پہلے موقعے پر شرک فی الدعاء یعنی پکار اور دعاء میں شرک کی نفی کی، دوسرے موقع پر نذر ونیاز میں شرک کی۔ اور تیسرے موقع پر شفاعت قہری کی نفی فرمائی۔
یہ تین وجوہات ربط کی ہوگئیں۔ اگرچہ مفسرین نے اور بھی بہت وجوہات بیان کی ہیں، لیکن یہ کافی ہیں۔
:سورۃ البقرہ کے دو اہم حصے
مضامین کے اعتبار سے اس سورت کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ ابتدائے سورت سے شروع ہو کر بائیسویں رکوع میں وَاوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ پر ختم ہوتا ہے۔ اور دوسرا حصہ اسی رکوع میں يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰي سے لے کر سورت کے آخر تک چلا گیا ہے۔ پہلے حصے میں دو اعتقادی مسئلے بیان کئے گئے یعنی توحید اور رسالت اور دوسرے حصہ میں دو ہی مسئلوں کا بیان ہے مگر ان کا تعلق عمل سے ہے یعنی جہاد فی سبیل اللہ اور انفاق فی سبیل اللہ اور ساتھ ساتھ امور انتظامیہ اور امور مصلحہ کو بھی بیان کیا گیا ہے۔
حصہ اول: میں ابتدائے سورت سے لے کر پندرھویں رکوع میں وَلَاھُمْ یُنْصَرُوْنَ تک توحید کا مضمون بیان ہوا ہے۔ شروع کے دو رکوعوں میں بطور تمہید تین جماعتوں کا تذکرہ ہے جو دعوائے توحید کو ماننے اور نہ ماننے سے پیدا ہوئیں۔ پھر يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُم سے دعوئ توحید اور الَّذِىْ خَلَقَكُمْ تا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ دلیل عقلی اور كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ تا اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ دلیل عقلی کا تتمہ بیان کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ نظام عالم کا مالک ومدبر کا رساز اور ہر شہ کو جاننے والا صرف اللہ ہی ہے اس لیے اپنی حاجات میں صرف اسے ہی پکارو۔ اس کے بعد توحید سے متعلق مشرکین کے دو شبہات ذکر کے ان کا جواب دیا ہے۔
مشرکین کا پہلا شبہ یہ تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم کو انبیاء اور اولیائے کرام کی پوجا اور پرستش اور انہیں پکارنے سے روکتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ مجھے اللہ نے ایسا ہی حکم دیا ہے تو یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کی پرستش سے منع کرے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا محمد جو کچھ کہتا ہے اپنی طرف سے کہتا ہے اور (عیاذاً باللہ) اللہ پر افتراء کرتا ہے جیسا کہ سورة یونس رکوع 4 میں ہے اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰہُ تو اللہ تعالیٰ نے وَاِنْ کُنْتُم فِی رَیْبٍ۔۔ الخ سے اس کا جواب دیا مشرکین کا دوسرا شبہ یہ تھا کہ ہم کس طرح محمد کا دعویٰ مان لیں اور اس کلام کو کس طرح اللہ کا کلام سمجھ لیں حالانکہ اس میں اللہ کے نیک بندوں کے پکارنے کو بالکل حقیر چیزوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جیسا کہ سورة عنکبوت رکوع نمبر 4 میں مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِيَاء كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعویٰ اللہ کی طرف سے نہیں ہے اور نہ ہی یہ کلام اللہ کی طرف سے نہیں ہے اور نہ ہی یہ کلام اللہ کا کلام ہے تو اللہ تعالیٰ نے اِنَّ اللّٰهَ لَا يَسْتَحْىٖٓ۔۔الخ سے اس کا جواب دیا کہ مثال ممثل لہٗ کی وضاحت کے لیے ہوتی ہے اور مکڑی کی مثال سے مسئلہ توحید کو واضح کیا گیا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ ان کے اعتراضات کی وجہ سے مثالیں بیان کرنا چھوڑ نہیں دیگا۔
مشرکین انبیاء واولیاء کے علاوہ فرشتوں اور جنوں کو بھی پکارتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ يَقُوْلُ لِلْمَلٰىِٕكَةِ اَهٰٓؤُلَاءِ اِيَّاكُمْ كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ قَالُوْا سُبْحٰنَكَ اَنْتَ وَلِيُّنَا مِنْ دُوْنِهِمْ بَلْ كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ الْجِنَّ اَكْثَرُهُمْ بِهِمْ مُّؤْمِنُوْنَ (سورة سبا :40-41) اس لیے اس کے بعد چوتھے رکوع میں وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰىِٕكَةِ سے نوریوں، ناریوں اور خاکیوں کا ایک مسلم اصل واقعہ بیان کر کے ثابت کیا کہ فرشتوں کو تو آدم خاکی کی فطری خوبیوں کا پتہ بھی نہ چل سکا اس لیے نہ وہ عالم الغیب ہیں اور نہ حاضر وناظر لہٰذا وہ حاجات میں پکارے جانے کے لائق نہیں اور ابلیس اور اس کی ذریت کو بنی آدم کے ساتھ شروع ہی سے عداوت و دشمنی ہے اس لیے وہ کس طرح تمہارے حمایتی اور پکارے جانے کے لائق تو ہوسکتے ہیں جیسا کہ سورة کہف رکوع 7 میں ہے اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗٓ اَوْلِيَاء مِنْ دُوْنِيْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ۔ اسی طرح آدم (علیہ السلام) تو جنت ہی میں بھول گئے تھے اور معبود اس عیب سے پاک ہوتا ہے اس لیے وہ بھی دعاء و پکار کے لائق نہیں ہیں۔
مدینہ اور اس کے گرد ونواح میں یہودی قوم آباد تھی۔ ان میں بڑے بڑے عالم، پیر اور نواب موجود تھے۔ اَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُم۔ میں دعوئے توحید کو عمومی طور پر بیان کرنے کے بعد پانچویں رکوع سے کلام کارُخ یہود کی طرف موڑ دیا ہے کہ دیکھو مسئلہ توحید کو مان لو اگر تم نے نہ مانا تو تمہاری وجہ سے تمہارے معتقدین اور تمہاری رعایا بھی نہیں مانے گی اور ان کا وبال بھی تم پر پڑے گا۔ اس مسئلے کو ماننے سے اگر تمہیں دنیوی ریاست اور نذر ونیاز کی آمدنیاں چھوڑنی پڑیں تو صبر کرو اگر مان لوگے اللہ تعالیٰ تمہیں پہلے کی طرح اپنی نعمتوں سے نوازے گا اور اگر نہ مانا تو عذاب میں مبتلا کئے جاؤ گے اس کو اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ الَّتِىْٓ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْتاوَاِيَّاىَ فَارْھَبُوْنِ سے بیان فرمایا۔ پھر چھٹے رکوع سے گیارھویں رکوع کے آخر تک قوم یہود کی تذکیر و تفہیم کے لیے ان کے مختلف حالات ومعاملات بیان کیے ہیں جن کی پانچ انواع ہیں۔
٭ وہ نعمتیں اور نقمتیں بیان کی گئی ہیں جو ان کے آباء و اجداد پر ہوئیں تاکہ موجودہ بنی اسرائیل میں امید وخوف کا جذبہ پیدا ہوا اور وہ دعوی توحید کو مان لیں۔
٭ پھر دوسرےنمبرپربیان کیا گیا کہ ان کے آباء و اجداد اللہ کی نافرمانی کیا کرتے تھے اور اس کے حکموں میں حجت بازی کرتے تھے۔
٭ پھرتیسرےنمبر پربیان کیا گیا کہ موجودہ بنی اسرائیل بھی اپنے باپ دادا کی طرح اللہ کے احکام کو ٹھکرا رہے ہیں اور اس کی نافرمانی کر رہے ہیں۔
٭ پھرچوتھےنمبرپرکہا گیا کہ موجودہ بنی اسرائیل کے آباء و اجداد نے صرف انبیاء (علیہم السلام) کی تکذیب پر ہی اکتفاء نہیں کی بلکہ جب انہوں نے مسئلہ توحید بیان کیا تو یہ لوگ انہیں قتل کرنے سے بھی نہ چوکے۔
٭ پھر پانچویں نمبرپر بیان کیا گیا ہے کہ گزشتہ بنی اسرائیل نے سابقہ انبیاء کی تکذیب کی اور انہیں قتل کیا لیکن وجود ہ بنی اسرائیل آخری نبی کی تکذیب کر رہے ہیں اور اس کے لائے ہوئے دعوی توحید کو ٹھکرا رہے ہیں۔
اس کے بعد یہود کے ایک قول نُؤْمِنُ بِمَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُوْنَ بِمَا وَرَاءهٗ کی پانچ طرح سے تردید کی گئی ہے اور آخر میں قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ اس تفصیلی وعظ وتذکیر سے بھی اگر یہودی ہدایت پر نہ آئیں اور مسئلہ توحید کو نہ مانیں اور اس ضد پر اڑے رہیں کہ جنت میں وہی جائیں گے اور کوئی نہیں جائے گا تو انہیں مباہلہ کا چیلنج دیا جائے کہ اگر وہ اپنے اس دعویٰ میں سچے ہیں تو میدان مباہلہ میں نکلیں۔ جب یہودی مباہلہ کے لیے تیار نہ ہوئے تب انہوں نے توحید پر شبہات وارد کرنے شروع کردئیے اور غیر اللہ کی پکار کو جائز ثابت کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔
پہلا شبہ: ان کا یہ تھا کہ دعوائے توحید جو يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ میں مذکور ہے اس کا لانے والا جبرائیل فرشتہ ہے اور وہ اور میکائیل دونوں قدیم سے ہمارے دشمن ہیں اور ہمیشہ ہماری مخالفت کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے یہ دعوئے توحید بھی محض ہماری مخالفت کے لیے اس لیے ہم اسے کبھی نہیں مانیں گے۔
دوسرا شبہ: ان کا یہ تھا کہ ہمارے ورد وظیفے جو سلیمان (علیہ السلام) سے منقول ہو کر ہم تک پہنچے ہیں ان میں غیر اللہ کی پکار موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی غیر اللہ کو پکارا کرتے تھے اور اسی پر ان کی حکومت کا مدار تھا۔
تیسرا شبہ: یہ تھا کہ ہاروت وماروت دو فرشتے تھے جن کو اللہ نے جادو سکھانے کے لیے دنیا میں بھیجا تھا اور جادو میں غیر اللہ ہی کو پکارا جاتا ہے۔ تو جب خود اللہ نے غیر اللہ کی پکار کی تعلیم کے لیے فرشتوں کو بھیجا تو پھر یہ کیوں ناجائز ہے تو اللہ تعالیٰ رکوع 12 میں مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ۔۔ الخ سے شبہ اولی کا جواب اور لَمَّا جَاءھُمْ رَسُوْلٌ تا وَمَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ وَلٰكِنَّ الشَّيٰطِيْنَ كَفَرُوْا سے شبہ ثانیہ کا جواب اور وَمَآ اُنْزِلَ عَلَي الْمَلَكَيْنِ سے شبہ ثالثہ کا جواب دیا۔
جب یہود کے شبہات کا تسلی بخش رد کردیا گیا اور اب انہیں انکار دعویٰ کی کوئی وجہ نظر نہ آئی تو اب انہوں نے یہ سازش کی کہ مسلمانوں میں مل جل کر رہیں اور خفیہ طور پر ان میں موہم (شکی) الفاظ داخل کریں تاکہ آہستہ آہستہ غیر شعوری طور پر مسلمان پھر سے شرک میں مبتلا ہوجائیں۔ چنانچہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہود کی اس سازش سے آگاہ فرمایا اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ پیغمبر (علیہ السلام) راعنا کہنا چھوڑ دیں کیونکہ یہ لفظ یہودیوں نے اپنی خفیہ ساش کے تحت مسلمانوں میں رائج کیا تھا تاکہ ان کے ذہن میں یہ تصور پیدا ہوجائے کہ اللہ کا پیغمبر بھی نگہبان ہے اور اس طرح وہ پھر شرک کی دلدل میں پھنس جائیں کیونکہ راعنا مراعاۃ سے ہے جس کے معنی نگہبانی کرنے کے ہیں اور راعنا کے معنی ہوں گے نگہبانی کر۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کی جگہ انظرنا کہنے کا حکم دیدیا۔ آخر میں فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْاسے یہ فرمایا کہ اہل کتاب ضد وعناد اور بغض وحسد میں اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ وہ کبھی مانیں گے نہیں۔ اس لیے جب تک اللہ کی طرف سے جہاد کا حکم نہیں آتا۔ اس وقت تک صبر و تحمل اور در گذر سے کام لو۔
اس کے بعد یہود ونصاریٰ اور مشرکین عرب کی پانچ معاندانہ (مخالفانہ)باتوں کا شکوہ کر کے ان کا جواب دیا ہے۔
٭ یہود ونصاریٰ کا دعویٰ تھا کہ ان کے سوا جنت میں کوئی نہیں جائے گا تو اللہ تعالیٰ قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ سے اس کا جواب دیا۔
٭ یہودی کہتے تھے عیسائیوں کا دین باطل ہے اور عیسائی کہتے یہودیوں کا دین باطل ہے۔ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِيْنَ سے اس کا جواب دیا۔
٭ مشرکین اللہ کے گھر میں توحید بیان کرنے اور خالص اسے ہی پکارنے سے منع کرتے تھے جیسا کہ مقام حدیبیہ میں مشرکین مکہ نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو بیت اللہ میں داخل ہونے سے روکا۔ اُولٰىِٕكَ مَا كَانَ لَھُمْ اَنْ يَّدْخُلُوْھَآسے اس کا جواب دیا ہے۔
٭ عزیراللہ کا بیٹا اور اس کا نائب ہے، نصاریٰ عیسیٰؑ کو اور مشرکین فرشتوں کو اللہ کی اولاد بتاتے اور انہیں کارسازی میں اللہ کے نائب سمجھتے تھے۔ سُبْحٰنَهٗ بَلْ لَّهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔۔ الخ سے اس کا جواب دیا۔
٭ مشرکین کہتے تھے کہ اللہ ہم سے کیوں ہمکلام نہیں ہوتا۔ اگر وہ براہ راست ہم سے باتیں کرے تو ہم مان لیں گے۔ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ سے اس کا جواب دیا۔
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر وقت یہ فکر رہتی تھی کہ مشرکین اور اہل کتاب ایمان لے آئیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی کہ آپ کا فرض صرف یہ ہے کہ آپ ان تک دعوت توحید پہنچادیں باقی منوانا آپ کا کام نہیں اور اگر آپ یہ چاہیں کہ یہود ونصاریٰ آپ سے خوش ہوجائیں تو وہ صرف اس شرط پر آپ سے خوش ہوں گے کہ آپ ان کا دین قبول کرلیں اور ان کی خواہشات کی پیروی کریں۔ اس کے بعد و وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاءھُمْ میں بطور زجر فرمایا کہ اللہ کی طرف سے علم اور وحی آجانے کے بعد اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کرلی تو پھر آپ کو بھی اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں۔
ابتداء سورت میں دعویٰ توحید کو الَّذِىْ خَلَقَكُمْ سے عقلی دلیل لا کر ثابت کیا گیا تھا۔ اب یہود کے حالات بیان کرنے کے بعد اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ سے دعویٰ توحید پر نقلی دلیل پیش کی گئی ہے کہ یہود میں جو علماء ہیں وہ اس دعویٰ کو مانتے ہیں۔ اس کے بعد يٰبَنِىْٓ اِسْرَاءِيْلَ اذْكُرُوْاسے بنی اسرائیل کو دوبارہ یاد دہانی کرا کر توحید کی بحث کو ختم کردیا ہے، آگے رسالت کی بحث ہے۔
اس کے بعد پندرھویں رکوع میں وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بائیسویں رکوع میں وَاُولئِکَ ھُمُ المْمٗتَّقُوْنَ تک رسالت کا بیان ہے پہلے بطور تمہید ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کیا ہے۔ جنہیں مشرکین عرب اور یہود ونصاریٰ اپنا روحانی وجسمانی باپ سمجھتے تھے ،یعنی ابراہیم (علیہ السلام) جو بڑے پایہ کے پیغمبر تھے، جو ہر آزمائش میں پورے اترے اور جنہوں نے خانہ کعبہ تعمیر کیا تھا۔ انہوں نے ہی اللہ سے دعاء مانگی تھی کہ اے اللہ مکہ میں ایک رسول بھیجنا ۔اب وہ رسول آگیا ہے اور اس رسول نے کوئی نیا دعویٰ نہیں کیا بلکہ اس ابراہیم (علیہ السلام) سے لے کرعیسیٰ(علیہ السلام) تک جو تمام پیغمبر کہتے چلے آئے ہیں اس کے ساتھ ایمان رکھتے ہیں۔ ہم صرف اللہ ہی کی عبادت کرینگے اور صرف اسے ہی پکارینگے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہود ونصاریٰ کے تین غلط پروپیگنڈوں کا جواب بھی دیا ہے۔
پہلا پروپیگنڈہ: وہ یہ کرتے تھے۔یعقوب ؑوفات کے وقت یہ وصیت کر گئے تھے کہ وفات کے بعد انہیں پکارا کرنا تو اللہ تعالی نے اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاۗءَ اِذْ حَضَرَ يَعْقُوْبَ الْمَوْتُ ۙ۔۔الخ سے اسکاجواب دیا۔
دوسرا پروپیگنڈہ: وہ یہ کرتے تھے۔ یہودی کہتے تھے کہ ابراھیم ؑیہودی تھے اور نصاریٰ کہتے تھے کہ وہ نصاریٰ تھے اس لیے ان کا دعویٰ تھا کہ ہدایت صرف یہودیت اور نصرانیت ہی میں منحصر ہے اور اس طرح وہ لوگوں کو اپنے دین کی طرف بلاتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے قُلْ بَلْ مِلَّةَ اِبْرٰھٖمَ حَنِيْفًا اور قُلْ ءَاَنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّٰه سے اس کا جواب دیا۔
تیسرا پروپیگنڈہ: ان کا یہ تھا ہم انبیاء (علیہم السلام) کی اولاد ہیں اس لیے ہم پر کچھ مواخذہ نہیں ہوگا اور ہم ان کے طفیل جنت میں چلے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ نے تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ سے تاکید اور دو دفعہ ان کے اس نظرئیے کی تردید فرمائی۔
اس کے بعد مشرکین عرب اور یہود کی طرف سے خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر دو شبہات وارد کئے جاتے تھے ان کا جواب دیا ۔
پہلا شبہ: یہ تھا کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) بنی اسرائیل کا قبلہ صدیوں سے بیت المقدس چلا آرہا ہے اور یہ پیغمبر 16، 17 ماہ اس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھتا رہا لیکن اب اس نے خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنی شروع کردی ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ انبیاء بنی اسرائیل کا مخالف ہے یا اس پر اصل قبلہ مشتبہ ہوگیا ہے اور وہ حیران وسرگردان ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کے جواب میں تحویل قبلہ کی چار علتیں بیان فرمائی ہیں۔ دو اجمالی اور دو تفصیلی۔ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ سے پہلی اجمالی علت بیان کی کہ تمام سمتیں اللہ کی ہیں وہ جس طرف چاہے منہ کرنے کا حکم دے۔ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰب َمیں دوسری اجمالی علت بیان فرمائی کہ علماء یہود اور اہل کتاب خوب جانتے ہیں کہ آخری پیغمبرر کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگا اگرچہ اب کتمان حق کر رہے ہیں۔ اور وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَالَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْهَآسے پہلی تفصیلی علت بیان فرمائی کہ تحویل قبلہ سے مخلص اور غیر مخلص کا امتحان مقصود ہے۔ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌمیں دوسری تفصیلی علت بیان فرمائی کہ تحویل قبلہ کا حکم تو تورات وانجیل میں مذکور ہے۔ اگر تحویل کا حکم نہ آتا تو اہل کتاب کو ایک عذر ہاتھ آجاتا اس کے بعد مومنوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ کا شکر بجا لائیں جس نے ان کو آخری اور ذو قبلتین (دو قبلوں والے) پیغمبر کی امت ہونے کا شرف بخشا ہے۔
دوسرا شبہ: ان کا یہ تھا (بلکہ بعض نو مسلموں کے دل میں بھی یہ خیال گذرا) کہ صفا ومروہ پر تو آج تک بتوں کی پوجا ہوتی رہی ہے اب یہاں حج کے موقع پر اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے حالانکہ یہ جگہ اس قابل نہیں ہے تو اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَاىِٕرِاللّٰهِ سے اس کا جواب دیا کہ صفا ومروہ تو اللہ کی نشانیوںمیں سے ہیں اور اس لیے اب وہاں بےکھٹکے اللہ کی عبادت کرو،کچھ گناہ نہیں۔ دونوں شبہات کے درمیان يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ (البقرہ : 153) سے مسلمانوں کو صبر و استقلال کی تلقین فرمائی۔ ممکن ہے کہ تحویل قبلہ کے بعد اہل کتاب و مشرکین سے مخالفت بڑھ جائے اور تمہیں ان کی طرف سے مالی وجانی نقصان برداشت کرنا پڑے اس لیے تم صبر کرنا اور ثابت قدم رہنا۔ ازالہ شبہات کے بعد اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ ۔ سے وَلَا ھُمْ يُنْظَرُوْنَ تک علمائے اہل کتاب کو زجر (جھڑکنا) فرمایا جو حق کو چھپاتے تھے یا اس کا انکار کرتے تھے۔ آگے وَاِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌسے اس دعویٰ توحید کا ذکر فرمایا جس کے کتمان و انکار پر اہل کتاب کو زجر کیا گیا پھر دعویٰ کو دلیل عقلی سے ثابت کرنے کے بعد وَمَا ھُمْ بِخٰرِجِيْنَ مِنَ النَّارتک ان لوگوں کے لیے تخویف اخروی ہے جو دعویٰ توحید کو نہیں مانتے اور محبت و بندگی کا جو تعلق انہیں اللہ سے رکھنا چاہیے وہ ایسا تعلق غیر اللہ سے قائم کیے ہوئے ہیں اس کے بعد تمثیلاً اس تعلق کا مختصر بیان ہے جس میں دو چیزیں مذکور ہیں۔
تحریمات عباد یا تحریمات غیر اللہ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ كُلُوْاسے اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْن تک اس کا بیان کہ یہ بحیرے اور سائبے وغیرہ جو تم نے اپنی طرف سے حرام کر رکھے ہیں، یہ حرام نہیں ہیں بلکہ حلال وطیب ہیں، انہیں کھاؤ اور اپنی طرف سے کسی حلال چیز کو حرام مت ٹھہراؤ، دوئم نذور غیر اللہ اس کا ذکر اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَسے کیا کہ جو چیزیں غیر اللہ کی خوشنودی کے لیے ان کے ر بطور نذر ونیاز دیتے ہو یہ حرام ہیں اور اس کے ساتھ تین اور محرمات کا ذکر بھی فرمایا۔ آگے اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ سے شِقَاقٍ بَعِيْدٍتک ان لوگوں کے لیے زجر اور تخویف اخروی ہے جو حق بات بیان نہیں کرتے۔ اور غیر اللہ کی نذرومنت اور دیگر باطل طریقوں سے لوگوں کا مال کھاتے ہیں۔
تحویل قبلہ کے بعد یہود ونصاری نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے خلاف معاندانہ پروپیگنڈہ تیز تر کردیا اور ہر ایک نے نیکی اور عمل صالح کو اپنے ہی قبلے کی پیروی میں منحصر کردیا تو اللہ تعالیٰ نے لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْاسے وَاُولٰىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ تک اس کا جواب دیا کہ اصل نیکی مخصوص سمتوں کی پابندی نہیں ہے بلکہ اصل نیکی تو خالص ایمان اور عمل صالح ہے، جو شخص ایمان لائے، شرک سے بچے اور نیک اعمال بجا لائے اصل میں نیک اور متقی تو وہ ہے یہاں تک حصہ اول ختم ہوا۔
:حصہ دوم
آگے حصہ دوم میں جہاد فی سبیل اللہ اور انفاق فی سبیل اللہ کا بیان ہے۔جہاد فی سبیل اللہ صرف وہی قوم کرسکتی ہے جو آپس میں منظم ہو اور جس کا اندرونی نظم ونسق درست ہو۔ اس لیے جہاد کے ساتھ ساتھ امور انتظامیہ کا ذکر کیا گیا ہے اور ان کے بارے میں اسلامی طرز عمل کی وضاحت کی گئی ہے اور امور انتظامیہ کے بارے میں اسلامی احکام کی پابندی صحیح طور پر صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے جبکہ انسان کے باطن کی اصلاح ہوجائے اور اس کی طبیعت میں صلاح وتقویٰ کی خوبیاں پیدا ہوجائیں اس لیے امور انتظامیہ کے دوش بدوش امور مصلحہ کا ذکر کیا گیا ہے اور امور انتظامیہ کا ذکر تین جگہ آیا ہے۔ پہلے يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰي سے حکم قصاص اور كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ سے حکم وصیت اور پھر رکوع 33 میں وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ سے ناحق مال غیر کھانے، رشوت اور ناجائز مقدمہ بازی سے ممانعت فرمائی۔ اس کے بعد آگے چل کر ھر امور انتظامیہ کا بیان فرمایا۔ وَلَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَيْمَانِكُمْ سے قسم کے احکام اور لِلَّذِيْنَ يُؤْلُوْنَ سے ایلاء کے اور وَالْمُطَلَّقٰتُ يَتَرَبَّصْنَ سے لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ تک نکاح و طلاق، عدت ورجعت، رضاعت اور بیوی سے حسن معاشرت کے احکام بیان فرمائے ہیں اور پھر رکوع 39 میں اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْن ٍسے ادھار پر خرید وفروخت، باہمی لین دین اور شبہات وغیرہ کے احکام بیان فرمائے ہیں۔ ان امور انتظامیہ کے درمیان تین امور مصلحہ بیان کئے گئے ہیں۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ سے روزہ، وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰه ِسے حج اور حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ سے صلوۃ کا حکم دیا ۔
تین امور انتظامیہ اور ایک امر مصلح کے بعد وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ (رکوع 34) سے جہاد کا حکم نازل فرمایا اور ساتھ ہی وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا۔ کیونکہ انفاق کے بغیر بھی جہاد نہیں ہوسکتا۔ اس کے بعد وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّعْجِبُکَ (رکوع 35) سے اَلَا اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِیْب (رکوع 26) تک مختلف طریقوں سے جہاد کی ترغیب دی ہے۔ اس کے بعد یَسْئَلُوْ نَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ سے انفاق کا بیان دہرایا ہے اور پھر كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ سے جہاد کا حکم دیا ہے ۔اس کے بعد رکوع 37 میں شہر الحرم میں قتال کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیا ہے کہ ان عزت والے مہینوں میں قتال واقعی بڑا گناہ ہے لیکن لوگوں کو توحید سے اور مسجد حرام میں اللہ کی عبادت سے روکنا اور کفر وشرک پھیلانا اس سے بھی بڑا گناہ ہے اس لیے بڑے گناہ اور فساد کو روکنے کے لیے ان مہینوں میں قتال جائز ہے۔ چونکہ شہر الحرم میں قتال کی دو جہتیں تھیں۔ ایک جواز کی اور ایک عدم جواز کی۔ اس لیے اسی مناسبت سے پانچ ذوجہتین مسائل اس کے بعد اور بیان فرمائے ہیں۔
ا۔ شراب اور جوا، ب۔ انفاق۔ ج۔ یتیم کا خرچ اپنے ساتھ رکھنا۔ د۔ نکاح اہل شرک۔ ذ۔ حائضہ بیوی سے مجامعت۔ پھر اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ خَرَجُوْا میں اسرائیلیوں کا ایک واقعہ بیان کیا ہے جو موت سے بھاگے تھے لیکن پھر بھی موت سے نہ بچ سکے اس کے بعد قَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰه ِسے سہ بارہ جہاد کا حکم دیا اور مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ سے انفاق کی ترغیب دی۔ اس کے اَلَمْ تَرَ اِلَى الْمَلَاِ سے ذُوْ فَضْلٍ عَلَي الْعٰلَمِيْن َتک بھی جہاد کی ترغیب ہے۔ اس میں بیان کیا ہے کہ اللہ پر بھروسہ رکھنے والی اور اس کی توحید قائم کرنے والی چھوٹی سی جماعت بھی بڑی جماعت پر غالب آسکتی ہے۔
اس کے بعد يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْاسے انفاق کا حکم ہے اور پھر اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ سے وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ تک دعوی توحید سے دلیل عقلی کو دہرایا ہے جس کی خاطر جہاد اور انفاق مشروع کئے گئے ہیں، اس کے بعد دو قاعدے بیان فرمائے ہیں۔
پہلا قاعدہ: ایمان والوں کے دل میں اگر شبہات پیدا ہوجائیں تو اللہ ان کے شبہات دور کر کے توحید کا راستہ ان کے لیے واضح کردیتا ہے اس کا بیان اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ (رکوع 34) میں ہے۔
دوسرا قاعدہ: جو لوگ عناداً حق چھپائیں۔ شیطان ان پر مسلط ہوجاتا ہے اور انہیں اس حد تک گمراہ کردیتا ہے کہ ان کے دلوں پر مہر جباریت لگ جاتی ہے۔ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓاسے فِيْهَا خٰلِدُوْن تک اس کا ذکر ہے۔ اس کے بعد ان دو قاعدوں پر لف ونشر غیر متب کے طور پر تین قصے متفرع فرمائے ہیں۔ نمرود کی سرکشی اور ابراہیم سے اس کا مباحثہ۔ یہ دوسرے قاعدہ پر متفرع ہے اور اس کے بعد عزیر اور ابراہیم (علیہما السلام) کے دونوں واقعے پہلے قاعدہ پر متفرع ہیں۔ یہاں تک تو جہاد کا بیان زیادہ تھا۔ اور انفاق کا حکم۔ اب آگے انفاق کے اکثر پہلووں کا تفصیلی بیان ہے۔ مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ (رکوع 36) سے وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ (رکوع 38) تک انفاق کا ذکر ہے۔ اس سلسلے میں مختلف طریقوں سے فی سبیل اللہ خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ خرچ کرنے میں ریاکاری اور دکھلاوے سے بچنے اور محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے خرچ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ صدقات و خیرات کے مستحق کون لوگ ہیں، خیرات کس طرح دینی چاہیے، اللہ کی راہ میں کیسا مال خرچ کرنا چاہیے، اور اس کے علاوہ بہت سے احکام متعلقہ انفاق بیان کیے گئے ہیں۔ اور ساتھ ہی سود کی حرمت اور سود خواروں کے لیے دنیوی واخروی تخویفیں بیان کی گئی ہیں۔
اس کے بعدآخری رکوع 40 کی ابتداء میں لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ سے دعویٰ توحید کے اثبات میں چوتھی عقلی دلیل بیان فرمائی ہے جب پوری سورت میں دعویٰ توحید کو مختلف عقلی ونقلی دلائل سے ثابت کردیا گیا اور یہ واضح ہوگیا کہ اللہ کے سوا کوئی پکارے جانے کے لائق نہیں اور اللہ کے سوا کوئی نذرونیاز اور منت کا مستحق نہیں اور نہ ہی اس کے مقابلہ میں کوئی شفیع غالب ہے تو آخر میں اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ سے اعلان کردیا کہ اللہ کا رسول اور تمام مومنین نظریہ توحید کو کما حقہ مان چکے ہیں۔ لہٰذا اب انہیں صرف اللہ ہی کو پکارنا چاہیے۔ اسی ہی کے سامنے آہ وزاری کرنی چاہیے اور اسی ہی سے اپنی امیدیں وابستہ کر کے دعاء والتجا کرنی چاہیے۔ اس لیے سورت کے اختتام پر اللہ سے دعا مانگنے اور اسے پکارنے کا طریقہ تعلیم کیا گیا ہے۔
:مختصر ترین خلاصہ
سورة بقرہ کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ اس کے دو حصے ہیں حصہ اول ابتداء سورت سے وَاُولٰىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ (رکوع 23) تک ہے اور دوسرا حصہ وہاں سے سورت کے آخر تک۔ حصہ اول میں دو مضمون بیان کیے گئے ہیں۔ توحید اور رسالت۔ ابتدائے سورۃ سے وَلَاھُمْ یُنْصَرُوْنَ تک توحید اور وَاِذِ ابْتَلٰی اِبْرٰھٖمَ رَبُّہٗ سے حصہ اول کے آخر تک رسالت کا بیان ہے۔ گویا کہ پہلا حصہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی تشریح ہے۔ دوسرے حصہ میں مسلمانوں کے ظاہر و باطن کی اصلاح کے طریقے اور اندرونی نظام کو درست کرنے کے لیے امور انتظامیہ بیان فرما کر مشرکین کے مقابلہ میں انہیں جہاد اور انفاق کا حکم دیا گیا ہے گویا کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی خاطر مشرکین سے جہاد کا حکم فرمایا گیا ہے۔یعنی دینی اور دنیوی لحاظ سے منظم ہو کر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی خاطر مشرکین سے جہادکے لئے کمرکَس لو۔