|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ فاتحہ مکی دورکی سورۃ ہے، اس میں سات آیات ایک رکوع پر مشتمل ہیں فاتحہ کا لفظ فتح سے ماخوذ ہے جس کے معنی کھولنے، آغاز اور شروع کرنے کے ہیں۔چابی کو بھی فاتح کہا جاتا ہے۔ چونکہ اس سورة سے قرآن حکیم کا آغاز ہوتا ہے اس لیے اس کو سورة  الفاتحہ کہا جاتا ہے۔اس سورۃ کے کئی نام ہیں فاتحۃ الکتاب، فاتحۃ القرآن، ام الکتاب، ام القرآن ، سورة المناجاۃ، سورة السوال، سورة الحمد، سورة الشکر وغیرہ ۔سب سے زیادہ مشہور نام الفاتحہ ہے۔

سورة الحجرآیت نمبر87 میں اسکا ایک نام السبع من المثانی ذکر کیا گیا ہے فرمایا ہے (وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ ) اور ہم نے آپ کو سات آیتیں دیں،جو بار بار پڑھی جاتی ہیں اور قرآن عظیم دیا۔

اس سورۃ کے دو حصے ہیں:پہلے حصے میں اللہ رب العزت کی حمد و ثنا ،عظمت و کبریائی  اور روز قیامت اس کے مالک و مختار ہونے کا اعتراف و اقرار ہے، دوسرے حصے میں ایک باشعور  اور منیب بندے کی اپنے آقا اور سرکار دو عالم  اللہ رب العزت  سے بندگی کے اظہار و اقرار کے بعد عاجزانہ دعا ہے  اور دعا بھی ایسی جامع  جو دنیا و آخرت کی فلاح و کامیابی کا پوری طرح احاطہ کیے ہوئے ہے ۔اس مفہوم کے لحاظ سے یہ قرآن کی مکمل ترین دعا ہے ۔ ہر چیز کا خلاصہ اور عرق ہوتا ہے، قرآن کا خلاصہ اور عرق  سورۃ  الفاتحہ ہے ۔اور سورۃ الفاتحہ کا خلاصہ اور عرق اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۝ۭ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔سورہ فاتحہ میں یہ آیت مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں  اِيَّاكَ مفعول کو نَعْبُدُ فعل پر مقدم کیا گیا ہے۔ تاکہ یہ حصر فائدہ دے اور مطلب یہ ہو کہ عبادت صرف اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔ اور اس کے سوا کسی پیغمبر، فرشتہ یا ولی کی عبادت اور پکار نہیں ہونی چاہیے ۔کیونکہ وہ سارے خود اللہ کے حکم سے اسی ہی کی عبادت کرتے ہیں۔ اسی طرح  اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں فائدہ حصر کے لیے مفعول بہ کو فعل پر مقدم کیا ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ مدد صرف اللہ ہی سے مانگنی چاہیے۔ اور اس کے سوا کسی پیر یا پیغمبر سے اور کسی فرشتہ یا ولی  الغرض (مِن دون اللہ )سے مافوق الاسباب امور میں مدد نہیں مانگنی چاہیے۔جس طرح عبادت صرف اللہ ہی کی ہونی چاہیے اسی طرح استعانت (مدد طلب کرنا) بھی صرف اسی ہی سے ہونی چاہیے، نہ کسی اور سے۔ استعانت (یعنی حاجات ومشکلات میں پکارنا اور مدد مانگنا) چونکہ عبادت کی سب سے بڑی اور اہم شاخ ہے اس لیے عبادت کے بعد خصوصیت سے اس کا ذکر فرمایا الدعاء مخ العبادۃ۔ اور ایک روایت میں ہے الدعاء ھو العبادۃ (سنن ابوداؤد:جلد اول:کتاب الصلوۃ:حدیث نمبر 1475 / جامع ترمذی:جلد دوم:کتاب الدعا:حدیث نمبر 1323) یعنی پکارنا ہی اصل عبادت ہے قرآن مجید میں بھی لفظ عبادت بمعنی دعاء اور پکار وارد ہوا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ (المومن :60) اور تمہارے پروردگار نے فرمادیا ہے کہ مجھ کو پکارو میں تمہاری درخواست قبول کروں گا جو لوگ (صرف) میری عبادت سے تکبرکرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہونگے۔ اس آیت میں پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی پکار کا حکم فرمایا ہے پھر پکار کو لفظ عبادت سے تعبیر فرمایا جیسا کہ خود نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ عِبَادَتِيْ سے مراد دُعَائِی ہے یعنی اس آیت میں عبادت سے دعا اور پکار مراد ہے۔

(جامع ترمذی:جلد دوم:کتاب التفسیر:حدیث نمبر 1195)

انسان و جن کی پیدائش کا مقصد واحد بھی یہی مسئلہ الہٰ ہے۔سورۃ الذاریات کی 56 نمبر آت میں  فرمایا  وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ  56؀ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت  کریں ۔

ایک اشکال کا ازالہ

اشکال:ہم ہر وقت یہ مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ ہر انسان دوسرے انسان سے مدد مانگتا ہے اور اسے اپنی مدد کے لیے پکارتا اور اس سے مدد کی درخواست کرتا ہے۔ یہ باہمی مددوامداد کا سلسلہ اس قدر وسیع اور ضروری ہے کہ اس کے بغیر دنیا کا کاروبار ایک منٹ بھی نہیں چل سکتا اور اس باہمی امداد کا ثبوت خود قرآن مجید میں بھی موجود ہے عیسیٰ (علیہ السلام) نے جب یہودیوں کی شرارت بھانپ لی اور سمجھ لیا کہ وہ کفر پر اڑ گئے ہیں تو اعلان کیا :۔ مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ (آل عمران 52) اللہ کی طرف میرے مددگار کون ہیں تو حواریوں نے جواب دیا کہ ہم ہیں اللہ کے دین کے مددگار۔ اسی طرح ذوالقرنین نے بھی ایک قوم سے مدد کی درخواست کی تھی۔ سورة کہف آیت نمبر 95 میں فَاَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّ ةٍ ۔ یعنی تم لوگ قوت بازو سے میری مدد کرو۔اس کے  علاوہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو امداد باہمی کا حکم دیا ہےفرمایا  وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى (المائدہ :2) اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک د وسرے کی مدد کیا کرو۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ غیر اللہ سے مدد مانگنا جائز ہے آج کل کے اہل بدعت اس قسم کی چیزیں پیش کر کے عوام کو ورغلانے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو جی اللہ  نے ایک دوسرے سے مدد مانگنے کا حکم دیا ہے اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اپنے متبعین سے مدد مانگی تھی۔ لہٰذا اولیاء اللہ سے بھی مدد مانگنا جائز ہے۔

 جواب: اہل بدعت کے قول سے معلوم ہوا العیاذ باللہ عوام الناس اولیاء اللہ اور انبیاء (علیہم السلام) کے حاجت روا اور مشکل کشا ہیں کیونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے حواریوں سے مدد مانگی اور ذوالقرنین نے اپنی قوم سے۔ یہ اہل بدعت بھی عجب کشمکش اور مخمصے میں مبتلا ہیں ایک طرف تو دعویٰ کرتے ہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء حاجت روا اور مشکل کشا ہیں اور دوسری طرف عوام الناس کو انبیاء اور اولیاء کا حاجت روا سمجھتے ہیں۔ معاذ اللہ ربی۔ یہ تو الزامی جواب تھا، اس کا تحقیقی جواب یہ ہے کہ۔۔

 اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں جو استعانت اور استمداد اللہ کے ساتھ مختص کی گئی ہے وہ اور ہے اور جو استمداد واستعانت روزمرہ کی زندگی میں ہر آدمی دوسرے سے کرتا ہے یا جو انبیاء (علیہم السلام) نے اپنے متبعین سے کی وہ اور ہے۔ اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں

 استعانت کی دو قسمیں : استعانت (مدد مانگنے) کی دو قسمیں ہیں۔

 ایک استعانت ماتحت الاسباب یعنی ظاہری اسباب کے تحت کسی سے مدد مانگی جائے۔ یہ وہ امداد ہے جو تمام انسانوں کو روزمرہ کی زندگی میں ایک دوسرے سے حاصل ہوتی ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے حواریوں سے جو مدد مانگی تھی وہ بھی ماتحت الاسباب تھی جب انہوں نے محسوس کیا کہ یہود ان کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو حواریوں سے فرمایا کہ کیا تم میں کوئی ہے جو اللہ کے دین کے لیے میری امداد کرے۔ حواریوں نے جواب دیا کہ ہم ہیں اللہ کے دین کے مددگار۔ یہ سارا معاملہ ماتحت الاسباب تھا حواری عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس تھے۔ غائب نہیں تھے۔ انہوں نے بالمشافہ حواریوں سے اسباب عادیہ کے تحت امداد طلب کی اسی طرح ذوالقرنین نے بھی یاجوج ماجوج کو روکنے کے لیے دیوار بناتے وقت لوگوں سے جو کہا تھا۔ اَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّةٍ کہ تم لوگ قوت بازو یعنی کام سے میری مدد کرو یہ مدد بھی ظاہری اسباب کے تحت تھی۔ نہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے حواریوں کو غائبانہ پکارا اور نہ ان سے مافوق الاسباب مدد مانگی اور نہ ہی ذوالقرنین نے اپنی قوم سے ایسا کیا۔ جس طرح ظاہری اسباب کے تحت مددا مداد جائز ہے اسی طرح اسباب عادیہ کے تحت پکار بھی جائز ہے یعنی جو آدمی سامنے موجود ہو اسے پکار کر (یعنی اے فلاں کہہ کر) کوئی ایسا کام کرنے کا کہا جائے جو اسباب عادیہ کے تحت اس کی قدرت میں ہو مثلاً اسے کہا جائے کہ مجھے پانی پلا دو یا بازار سے سودا سلف لادو وغیرہ۔ قرآن مجید میں ہے۔ جنگ احد میں وقتی افراتفری کی بنا پر جب کچھ صحابہ کرام نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدہ ہوگئے تو آپ نے ان کو واپس بلایا۔ وَّالرَّسُوْلُ يَدْعُوْكُمْ فِيْٓ اُخْرٰىكُمْ (آل عمران :153) اور رسول پیچھے سے تم کو بلا رہے تھے۔نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ بلانا اور پکارنا اسباب ظاہری کے تحت تھا اور آواز اُن کو دی جارہی تھی جو میدان احد میں آپ کی آواز سن رہے تھے۔ یہ پکار ماتحت الاساب ہے اور اس کے بغیر دنیا کا کاروبار ہی نہیں چل سکتا۔ ایک جگہ فرمایا  لَا تَجْعَلُوْا دُعَاء الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا (النور : 63) یعنی جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو نام سے اور بلند آواز سے پکارتے ہو اس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہ پکارا کرو، معلوم ہوا کہ جو استعانت، امداد باہمی اور پکار عادی اسباب کے تحت ہو وہ نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کے سوا دنیا کا کاروبار ہی نہیں چل سکتا اور اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں اس قسم کی استعانت کا حصر مقصود نہیں اور نہ ہی اس کی قرآن میں ممانعت ہے۔ 

استعانت کی دوسری قسم ہے مافوق الاسباب یعنی اسباب عادیہ کے بغیر کسی کو دور ونزدیک سے غائبانہ پکارا جائے اور اس سے استمداد کی جائے یہ پکار اور استعانت اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اللہ کے سوا کسی پیغمبر، فرشتہ یا ولی سے ہرگز جائز نہیں۔ تمام انسانوں بلکہ جانداروں کی مافوق الاسباب مدد اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے۔ اس کی امداد میں قرب وبعد کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔ اور یہ استمداد غیر اللہ سے شرک ہے اور یہی وہ استمداد واستعانت ہے جس کا اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں حصر ہے۔ اس موقع پر تفسیروں میں ایک سوال و جواب مذکور ہے کہ انسان ایک دوسرے سے کئی امور میں مدد لیتا ہے۔ پانی مانگتا ہے۔ روٹی مانگتا ہے اور اس سے کئی ضرورت کی چیزیں طلب کرتا ہے تو پھر اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کا حصر کس طرح صحیح ہوا اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ انسان ظاہری اسباب کے تحت ایک دوسرے سے جو امداد لیتا ہے۔ وہ ظاہری امداد بھی دراصل اللہ تعالیٰ ہی سے ہوتی ہے۔ کیونکہ مدد کرنے والے انسان کے جسم وجان کو اللہ ہی نے پیدا فرمایا ہے۔ اسے ہاتھ پاؤں اسی نے دئیے اور ان میں حرکت بھی اسی نے پیدا فرمائی لیکن استعانت اور

استمداد کی مذکورہ بالا دو قسمیں (ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب) بیان کرنے کے بعد اس قسم کے سوال و جواب کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔

اس سورۃ  کا کیا مقام ہے اسکا اندازہ اس حدیث قدسی سے لگایا جاسکتا ہے ،جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایااللہ فرماتا ہے

قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ فَنِصْفُهَا لِي وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي

میں نےصلوۃ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کیا ہے اس کا نصف میرے لیے اور نصف میرے بندے کے لیے ہے۔

(صحیح مسلم:جلد اول:کتاب الصلوۃ:حدیث نمبر 875)

سورۃ فاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کردی گئی ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے جب بندہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب وہ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف بیان کی اور جب وہ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور ایک بار فرماتا ہے میرے بندے نے اپنے سب کام میرے سپرد کر دئیے اور جب وہ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور بندے کے لیے وہ ہے جو اس نے مانگا ہے جب وہ  اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ  کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو اس نے مانگا۔ (صحیح مسلم:جلد اول:کتاب الصلوۃ:حدیث نمبر 873)

مختصر ترین خلاصہ

اس سورۃ کے دو حسے ہیں پہلے حصے میں اللہ رب العزت کی حمد و ثنا  اور روز قیامت اس کے مالک و مختار ہونے کا اقرار ہے  اوردوسرے حصے میں ایک باشعور  اور منیب بندے کی اپنے رب سے بندگی کے اظہار و اقرار کے بعد عاجزانہ طور پر دنیا و آخرت کی فلاح و کامیابی کی دعا ہے ۔گویا پورے قرآن کا خلاصہ سورۃ الفاتحہ ہے۔ اور سورۃ الفاتحہ کا خلاصہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ہے۔