!اے ابن آدم
تمہیں لازمی جاننا چاہیے کہ گناہوں کی کثرت دل سے اللہ کا خوف نکال دیتی ہے اور جو شخص موت کہ وقت ایمان چھن جانے سے بے خوف و لاپرواہ ہو جائے اسکا ایمان چھین ہی لیا جاتا ہے۔
بعض دفعہ آدمی جہنمیوں کے سے کام کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور کوئی جنتیوں کے سے اعمال کرتا ہے حالانکہ وہ جہنمی ہوتا ہے۔
سالکین تو گناہ میں مبتلا ہونے سے ڈرتے ہیں مگر صحیح و راسخ علم شخص کو اس بات کا ڈر کھاتا رہتا ہے کہ وہ کفر میں مبتلا نہ ہو جائے۔
!اے مخاطب
یک منافق ہی نفاق سے بے خوف رہتا ہے اور اگر حقیقت میں تم نے بُرے خاتمے کے معنی کو سمجھ لیا تو لازمی اسکے اسباب سے بچو اور اصلاح کی تیاری کرو۔
میرے ہم سفر و ہم نشیں
جیسے شرک میں ملوث تھے تو توحید کو دل لگایا تھا۔
کفر میں مگن تھے تو ایمان کو دل میں بسایا تھا۔
بدعت میں غرق تھے تو سنتوں کو اپنایا تھا۔
اگر تم سمجھتے ہو کہ تم نے جھوٹ بولا تھا تو اب سچ بول کر ازالہ کرو۔
محفل میں جھوٹ کے گواہ بنے تھے تو اب اسی محفل میں سچ کے گواہ بناوٴ۔
دیکھو اٍس تیاری کو آٸندہ پر ڈالنے سے گریز کرنا ورنہ یاد رکھنا صغیرہ گناہ اسی کے معاف ہوتے ہیں جو کبیرہ گناہوں سے بچتا ہے۔
جیسے شرک اکبر الکباٸر ہے اسی طرح جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا بھی اکبر الکباٸر میں داخل ہے۔
یہ تو تم مانتے ہو نا کہ انبیاء و اولیاء تم سے زیادہ عقلمند تھے؟ پھر تمہیں ان کے خوف کی شدت میں غور کرنا چاہیے، شاید تم اپنے نفس کو تیار کر سکو۔
اگر تم عمر بن خطابؓ کے انصاف سے واقف ہو تو دیکھنا چاہیے کہ وہ خود کو عوام میں احتساب کے لیے پیش رہتے تھے اس بات پر کہ نبیﷺ نے بھی خود کو احتساب کے لیے پیش کر دیا تھا۔
اگر ناصحانہ کلام بھی اصلاح و ازالے پر آمادہ نہیں کرتا تو میرے دوست یہ ایمان کی ناقدری ہے اپنے ایمان کی خیر مناوٴ۔ جب تم اپنے باپ کی پیٹھ میں تھے تب ہی تمہارا فیصلہ ہوچکا تھا کہ تم جنتی ہو یا جہنمی ہو۔
یہی کیا تھا رسول اللہﷺ نے اے عائشہ! اللہ تعالیٰ نے جنت میں رہنے والے لوگ پیدا فرمائے ، انہیں اس وقت جنت کے لیے تخلیق کیا جب وہ اپنے باپوں کی پشتوں میں تھے اور جہنم کے لیے بھی رہنے والے بنائے، انہیں اس وقت جہنم کے لیے تخلیق کیا جب وہ اپنے باپوں کی پشتوں میں تھے۔ (صحیح مسلم: 2662)
راز تو یہ ہے کہ ڈر گناہوں کی کثرت سے نہیں بلکہ دل کی صفائی اور کمالٍ معرفت سے آتا ہے۔ اگر ہم اور تم بے خوف ہیں تو جہالت کے غلبے اور دل کی سختی کیوجہ سے صاف دل کو تھوڑا سا خوف بھی حرکت میں لاتا ہے اور سخت دل پر کوٸی وعظ اثر نہیں کرتا۔