|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ الشعراء

سورۃ  الشعراء مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 26 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے47 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 227آیات ہیں جو11 رکوع پر مشتمل ہیں۔اس سورۃ کا نام آیت 224 وَالشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُھُمُ الْغَاوٗنَ ۔ سے ماخوذ ہے۔ اس سورۃ میں موسی علیہ السلام کے احوال پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے جیسے آپ فرعون کے گھر پرورش پانا،پھر بڑے ہوکر اس کےد عوی ربوبیت کے خلاف کھڑے ہونا،جادوگروں سے مقابلہ کرنا،اور ان کا آپ پرایمان لانا،پھر آپ کا اپنی قوم بنی اسرائیل کو لے کر مصر سےنکلنا فرعون کا ان کے پیچھے آنا اور سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہونا اور بنی اسرائیل کا سمندر سے پار ہونا وغیرہ۔اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام نوح علیہ السلام صالح ،لوط،اور شعیب علیہ السلام کی تبلیغی سرگرمیاں بیان کی گئیں ہیں ۔اور سب سے آخر میں رسول اللہ کی رسالت کا بیان ہے ۔جو آپ کےآخری رسول ہونے کی دلیل ہے۔

سورة الشعراء کا سورۃ الفرقان سے ربط

سورة فرقان میں فرمایا  تبرک الذی نزل الفرقان ۔۔الخ  یعنی یہی نور توحید حق و باطل کے درمیان فرقان ہے یا اسی نور کی توضیح کے لیے اللہ نے فرقان نازل فرمایا،اب سورۃ الشعراء میں  بیان ہوگا کہ یہ کتاب فرقان شیطان کی طرف سے نازل نہیں ہوا اور نہ ہی یہ شاعروں کا کلام ہے بلکہ اسے اللہ نے جبریل کے زریعے محمدﷺ پرنازل کیا ہے۔

 سورة کہف سے لے کر یہ مضمون بیان کیا جا رہا ہے کہ  لم یتخذ ولدا  یعنی سارے جہان کا خالق، سارے عالم کا مدبر اور تمام امور میں متصرف و مختار اللہ تعالیٰ ہے اور اس کا کوئی کوئی نائب نہیں اور نہ اس نے اپنا کوئی اختیار کسی کے حوالے کر رکھا ہے لہٰذا وہی سب کا کارساز اور حاجت روا ہے، مصائب و مشکلات میں صرف اسی کو پکارو اور صرف اسی کے نام کی نذریں منتیں دو ۔ اب سورة الشعراء میں بھی بطور ثمرہ و نتیجہ یہ بیان ہوگا فَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ فَتَكُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِيْنَ (رکوع11)کہ جب کارساز اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس کا کوئی نائب نہیں تو برکات دہندہ اور ہر خیر و برکت کا سرچشمہ بھی وہی ہے لہٰذا اسی کو برکات دہندہ سمجھ کر پکارو اور اسی سے برکات طلب کرو۔

طٰسۗمّۗ  ۔تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ۔یہ تمہید ہے اس میں قرآن پر عمل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ ۔۔الخ یہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے۔ دعوی توحید پر کچھ دلائل سورة الفرقان میں بیان ہوچکے ہیں اور کچھ اب سورة الشعراء میں بیان ہونگے۔ ان دلائل کے باوجود بھی اگر مشرکین نہ مانیں تو آپ اپنی جان کو غم میں نہ ڈالیں۔ کیونکہ غرض تبلیغ تھی جو احسن طریق سے ہوچکی اور زبردستی منوانا مقصود نہیں۔  و ما ياتيهم من ذکر ۔۔الخ یہ زجر ہے۔ یعنی یہ مشرکین مسلسل توحید کا انکار کر رہے ہیں ! چنانچہ اللہ کی طرف سے جب بھی مضمون توحید اور دعوت  تبارک  پر مشتمل کوئی تازہ آیت نازل ہوتی ہے تو وہ اس سے اعراض اور اس کا انکار کرتے ہیں۔  فقدکذبوا فسیاتھیہم الخ  یہ تخویف دنیوی ہے یا اخروی۔ ان معاندین پر ہماری حجت قائم ہوچکی اور مسئلہ توحید ہر پہلو سے ان پر دلائل کے ساتھ واضح کیا جا چکا ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ انکار و اعراض کر رہے ہیں، اس لیے اب عنقریب ہی انہیں توحید سے اعراض و استہزاء کی سخت سزا دی جائے گی جس طرح اقوام سابقہ کو ان کے انکار و اعراض اور عناد و استہزاء کی سزا دی گئی تو اس وقت ان پر توحید کی حقانیت واضع ہوجائے گی جس کا زندگی بھر مذاق اڑاتے رہے۔اَوَلَمْ يَرَوْا اِلَى الْاَرْضِ۔۔الخ یہ توحید پر عقلی دلیل ہے۔ وہ زمین کو نہیں دیکھتے کہ ہم اس میں انواع و اقسام کی پیداوار اگاتے ہیں جس میں ان کے لیے گوناگوں فوائد ہیں۔  ان فی ذلک لایۃ  یہ اس بات کی واضح اور کافی دلیل ہے کہ سارے جہاں کا کارساز اور برکات دہندہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں۔ وَاِذْ نَادٰي رَبُّكَ مُوْسٰٓي۔۔الخ یہ پہلی نقلی دلیل ہے جس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں اول یہ کہ برکات دہندہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں۔ دوم یہ کہ نہ ماننے والوں کو دنیا ہی میں ہلاک کردیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت سے سرفراز فرما کر حکم دیا کہ اس ظالم قوم یعنی قوم فرعون کے پاس جاؤ۔ قَالَ رَبِّ اِنِّىْٓ اَخَافُ۔۔تا۔۔ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ    (رکوع4)تک موسیٰ (علیہ السلام) کی تبلیغ کوششوں اور جادوگروں کا ایمان لانے کا واقعہ،آل فرعون کا غرق ہونا اور موسیؑ کے لشکر کا بچ جا نا کا قصہ مذکور ہے۔حاصل یہ ہے کہ فرعون مع لاؤ لشکر بنی اسرائیل کے تعاقب میں چل نکلا، اس طرح ہم نے ان کو باغوں اور ٹھنڈے چشموں سے، دولت سے لبریز خزانوں اور شاندار محلات سے نکال باہر کی اور باقیماندہ بنی اسرائیل کو ان کی تمام املاک کا مالک بنا دیا۔  کذالک  کاف بیان کمال کے لیے ہے۔ یعنی قوم فرعون کو سلطنت اور تمام املاک سے محروم کرنا اور بنی اسرائیل کو ان کا وارث بنا دینا ہمارا ہی کام تھا۔ بنی اسرائیل بحیرہ قلزم کے کنارے پہنچے تو پیچھے سے فرعونیوں نے ان کو آلیا۔جب دونوں لشکروں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا تو بنی اسرائیل نے کہا ہم تو پکڑے گئے۔موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ہرگز نہیں۔ میرا رب حافظ و ناصر ہے وہ دریا کو عبور کرنے کی مجھے کوئی تدبیر بتائے گا۔موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ تو یقین تھا کہ فرعون انہیں پکڑ نہیں سکے گا اور وہ دریا کو صحیح سلامت عبور کر جائیں گے لیکن ابھی تک انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ اس کی صورت کیا ہوگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) غیب دان نہ تھے۔

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ اِبْرٰهِيْمَ ۔۔تا۔۔ وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ (رکوع5)یہ دوسری نقلی دلیل ہے کہ اللہ کے سوا کوئی برکات دہندہ نہیں۔ اس سے تخویف دنیوی مطلوب نہیں۔ کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم پر انکار دعوی کی وجہ سے اس وقت عذاب نہیں آیا۔لیکن یہ تخویف اخروی ہے۔ کاش ! ہمیں ایک بار پھر دنیا میں بھیجا جائے تو ہم اخلاص اور صدق نیت سے ایمان لائیں، توحید کو مانیں اور شرک سے دور بھاگیں اور پھر ہمیں موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے تو ہم اس عذاب میں مبتلا نہ ہوں۔كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِۨ الْمُرْسَلِيْنَ۔۔تا ۔۔ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ(رکوع6) یہ تیسری نقلی دلیل ہے مع تخویف دنیوی۔ اس آیت میں قوم نوح کی طرف بہت سے رسولوں کی تکذیب منسوب کی گئی ہے حالانکہ انہوں نے صرف ایک رسول نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی تھی۔ اسی طرح آگے چل کر عاد وثمود، قوم لوط اور اصحاب الایکہ کے بارے میں یہی کہا گیا ہے کہ انہوں نے بہت سے رسولوں کی تکذیب کی حالانکہ انہوں نے ایک پیغمبر ہی کو جھٹلایا جو ان کے پاس بھیجا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام انبیاء و رسل (علیہم السلام) توحید اور دیگر اصول دین میں متفق تھے اور سب کی دعوت ایک تھی اس لیے ان میں سے ایک کو جھٹلانا اور اس کی دعوت کو نہ ماننا ایسا ہی ہے جیسا سب کو جھٹلا دیا۔كَذَّبَتْ عَادُۨ الْمُرْسَلِيْنَ۔۔تا۔۔ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ(رکوع7) یہ چوتھی نقلی دلیل اور تخویف دنیوی ہے۔ہود (علیہ السلام) نے قوم کو دعوت توحید دینے کے بعد متنبہ فرمایا کہ تم ہر بلند پہاڑ اور ٹیلے پر شان و شوکت کے اظہار کے لیے بےمقصد اونچے اونچے مینار بنا رہے ہو اور بڑی عالیشان عمارتیں تعمیر کر رہے ہو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم دنیا میں ہمیشہ رہنے کی امیدیں باندھے بیٹھے ہو۔لیکن جب عذاب آیا تووہ بلند پہاڑ اورمظبوط  ٹیلے اور بڑی عالیشان عمارتیں انکے کچھ کام نہ آئیں۔تنبیہ: ہرنبی اپنی قوم کو دعوت و تبلیغ میں ساتھ ساتھ یہ بیان کرتا آیا وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ ۚ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ   اور نہیں مانگتا ہوں میں تم سے اس کام پر کوئی اجر، نہیں ہے میرا اجر مگر ربُّ العالمین کے ذمّے۔اسکے برعکس آج ہر فرقہ اس بات پر متفق ہو گیا ہے کہ ہر امور دین پر اجرت وصول کرتا ہے۔جبکہ انبیاء نے اللہ کے دین کا کام بغیر کسی دنیاوی غرض کے سرانجام دیا۔لہذا دینی امور پر اجرت لینا ناجائز ہے۔ كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِيْنَ۔۔تا۔۔ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ    (رکوع8) یہ پانچویں نقلی دلیل اور تخویف اخروی ہے۔صالح ؑ نے کہا اللہ سے ڈرو اور اس کے ساتھ شرک نہ کرو اور میری اطاعت کرو، میں حکم الہیٰ سے صراط مستقیم کی طرف تمہاری راہنمائی کر رہا ہوں۔  ولا تطیعوا امر المسرفین  مسرفین سے کفر و شرک میں قوم کے راہنما اور رؤساء مراد ہیں جو لوگ کفر و شرک اور گمراہی کی اشاعت کر کے ملک میں شر و فساد پھیلا رہے ہیں ان کی پیروی مت کرو۔تمہارے مطالبہ معجزہ کے مطابق بطور معجزہ اونٹنی تمہارے سامنے ہے، اونٹنی کو کسی قسم کی تکلیف بھی مت دینا ورنہ سخت ترین عذاب میں مبتلا کیے جاؤ گے۔ انہوں نے اونٹنی کو قتل کرنے کا عزم بنایا اور اس کی ٹانگیں کاٹ کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس کے بعد جب اللہ کا عذاب آگیا تو اب اپنے کیے پر بہت پشیمان ہوئے مگر اب کیا فائدہ چنانچہ عذاب صیحہ سے اللہ نے ان کو ہلاک کردیا۔كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِۨ الْمُرْسَلِيْنَ۔۔تا۔۔ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ    (رکوع9) یہ چھٹی نقلی دلیل اور تخویف دنیوی ہے۔ لوط (علیہ السلام) اپنی قوم کو فعل بد سے منع کرتے ہوئے فرمایا کس قدر کم عقلی ہے کہ تم مردوں سے خلاف فطرت فعل کا ارتکاب کرتے ہو اور جنسی تسکین حاصل کرنے کے لیے اللہ نے تمہارے لیے جو بیویاں پیدا کی ہیں ان کو چھوڑ دیتے ہو۔سرکش قوم نے نہایت تند اور طاغیانہ جواب دیا۔ اے لوط ! اگر تو اپنے دعوی نبوت سے اور اس وعظ و تبلیغ سے باز نہ آیا تو ہم تمہیں شہر بدر کردیں گے اور یہاں نہیں رہنے دیں گے۔ لوط (علیہ السلام) نے قوم کی دھمکی کی ذرا پروا نہ کی اور صاف فرمادیا مجھے تمہارے اس فعل سے سخت نفرت ہے اور میں خود تم سے بیزار ہوں اور تم سے دوری چاہتا ہوں۔ لوط (علیہ السلام) نے دعا کی پروردگار ! مجھے اور میرے اہل کو ان کے عمل بد کے وبال و عذاب سے محفوظ رکھنا۔اللہ نے فرمایاہم نے لوط اور ان کے اہل بیت کو عذاب سے بچا لیا البتہ ایک بڑھیا جو مشرکہ تھی اسے اور باقی قوم کو ہلاک کردیا۔یہ بڑھیا (علیہ السلام) کی بیوی تھی۔  وامطرنا علیھم۔۔ الخ  ان کی بستی کو تہ وبالا اور اوپر سے سخت پتھروں کی بارش برسا دی۔ كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْــــَٔــيْكَةِ الْمُرْسَلِيْنَ۔۔تا۔۔ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ  (رکوع10) یہ ساتویں نقلی دلیل اور تخویف اخروی ہے۔شعیبؑ نے قوم کو دعوت الی اللہ دی قوم نہیں مانی دیکھ لو عبرت حاصل کرو ہم نے انکو دینا میں ہی ہلاک کردیا۔وَاِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ یہ ابتدائے سورۃ  میں

 وما یاتیہم من ذکر من الرحمن ۔۔الخ  سے متعلق ہے اور  انہ  میں ضمیر منصوب دعوی  تبارک  سے کنایہ ہے اور یہ دعوی  تبارک  پر دلیل وحی ہے یا ضمیر سے قرآن مراد ہے۔یعنی  مشرکین اس دعوے کی تکذیب اور اس سے استہزاء کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ دعوی تو رب العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے  نزل بہ الروح ۔۔الخ  جسے روح امین جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ کے قلب مبارک پر اتارا ہے تاکہ آپ اس دعوے کی تبلیغ فرمائیں اور نہ ماننے والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں۔ آپ کے اولین مخاطب چونکہ عرب ہیں اس لیے اسے فصیح عربی زبان کے الفاظ کا جامہ پہنا کر نازل کیا گیا۔وَاِنَّهٗ لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ۔۔تا۔۔فَيَقُوْلُوْا هَلْ نَحْنُ مُنْظَرُوْنَ (رکوع11) یہ دلیل نقلی از کتب سابقہ کی طرف اشارہ ہے۔  اولم یکن لھم ایۃ۔۔ الخ  یہ علماء بنی اسرائیل سے دلیل نقلی کی طرف اشارہ ہے۔ کیا ان کے لیے یہ دلیل کافی نہ تھی کہ اس دعوے کو علماء بنی اسرائیل بھی مانتے ہیں اور اس کی حقانیت کا اعتراف کرتے ہیں۔ علماء بنی اسرائیل سے وہ علماء مراد ہیں جو ایمان لا چکے تھے۔  یعنی یہ دعوی کوئی نیا نہیں بلکہ کتب سابقہ میں بھی مذکور ہے۔اَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْجِلُوْنَ ۔۔الخ  یہ مشرکین پر زجر ہے یعنی یہ ظالم ایک طرف تو مطالبہ کرتے ہیں کہ عذاب جلدی آئے اور دوسری طرف جب عذاب آجاتا ہے تو پھر مہلت مانگتے ہیں۔  افرایت ان متعنہم  تا  ما کانوا یمتعون  یہ مشرکین کے عناد و مکابرہ کی مزید وضاحت ہے نیز یہ بتانا مقصود ہے کہ ایمان اور عمل صالح کے بغیر عمر میں اضافہ انہیں عذاب الہیٰ سے ہرگز نہیں بچا سکے گا۔ یعنی اگر ہم ان کو سالہا سال مزید مہلت دیدیں اور وہ عیش و عشرت کے مزے لے لیں۔ اس کے بعد ان کے مسلسل کفر و شرک کی وجہ سے موعود عذاب آجائے تو اس مہلت سے انہیں کیا فائدہ پہنچے گا۔ نہ وہ ضد وعناد کی وجہ سے کفر و انکار سے باز آئیں گے، نہ اللہ کا عذاب ان سے ٹل سکے گا۔ وَمَآ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ۔۔الختخویف دنیوی ہے۔ یعنی ہم نے اپنی حجت قائم کرنے سے پہلے کسی قوم کو ہلاک نہیں کیا۔ ہم نے ہر قوم میں دعوت توحید پیش کرنے والے اور ہمارے عذاب سے ڈرانے والے پیغمبر بھیجے۔ جب قوم نے مسلسل ان کی تکذیب کی تو ہم نے اس کو ہلاک کردیا۔ ہم نے کسی قوم پر ظلم نہیں کیا اور حجت قائم کرنے سے پہلے کسی قوم کو عذاب نہیں دیا۔ وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيٰطِيْنُ یہ  وانہ لتنزیل رب العلمین  سے متعلق ہے۔ اس کے بارے میں مشرکین نے دو شبہے ظاہر کیے تھے اول یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع جن ہیں جو اس کے پاس خبریں لاتے ہیں۔ دوم یہ کہ وہ شاعر ہے اور اس کا کلام شاعرانہ ہوتا ہے جو سننے والوں کو فوراً متاثر کردیتا ہے۔ یہ مشرکین کے پہلے شبہہ کا جواب ہے۔ یعنی اس قرآن کو جو دعوی  تبارک  پر مشتمل ہے شیاطین لے کر نہیں آئے۔ کیونکہ شیاطین جو سراسر ناپاک اور خبیث ہیں اس لائق ہی نہیں اور نہ ان میں اس کی طاقت ہی ہے اس لیے کہ ملا اعلی کی باتیں سننے سے انہیں دور کردیا گیا ہے اور ان کی وہاں تک رسائی ممکن ہی نہیں۔فَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ فَتَكُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِيْنَ یہ دلائل ماقبل کا ثمرہ اور نتیجہ ہے جو پانچ امور پر مشتمل ہے یہ امر اول ہے۔ یعنی جب ثابت ہوگیا کہ برکات دہندہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں اور یہ دعوی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو اب اللہ کے سوا حاجات میں کسی کو مت پکارو ورنہ سخت عذاب ہوگا۔  وانذر عشیرتک الاقربین  یہ دوسرا امر ہے اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی ڈراؤ کہ وہ اللہ کے سوا کسی اور کو برکات دہندہ نہ سمجھیں۔  واخفض جناحک ۔۔الخ  یہ تیسرا امر ہے جو ایمان لا چکے ہیں ان سے نرمی کا برتاؤ کریں۔  فان عصوک۔۔ الخ  یہ چوتھا امر ہے مشرکین جو آپ کی بات نہیں مانتے ان سے آپ صاف کہہ دیں کہ میں تمہارے مشرکانہ اعمال سے بیزار ہوں۔  و توکل علی العزیز۔۔ الخ  یہ پانچواں امر ہے اور اس میں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے۔ اگر مشرکین آپ کی بات نہیں مانتے تو آپ فکر نہ کریں وہ آپ کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں گے آپ اللہ پر بھروسہ کریں وہ آپ کو مشرکین پر غلبہ عطا فرمائے گا۔ کیونکہ وہ غالب اور مہربان ہے وہ اپنے دشمنوں کو مغلوب اور اپنے دوستوں کو غالب کرتا ہے۔  هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰي مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيٰطِيْنُ یہ پہلے جواب ہی سے متعلق ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر شیاطین کا نازل ہونا محال ہے۔ یعنی شیاطین تو کاہنوں کے پاس آتے ہیں جو بڑے ہی جھوٹے اور بد عمل ہوتے ہیں۔ وہ شیطانوں کی باتیں غور سے سنتے ہیں اور ان کی اکثر باتیں جھوٹی اور بےاصل ہوتی ہیں۔ لیکن اس کے برعکس محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سراپا صدق و صفا ہیں، انہوں نے آج تک ساری زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا، ان کا کردار بھی آئینے کی مانند پاک اور شفاف ہے اس لیے شیاطین کا آپ کے پاس آنا ناممکن اور محال ہے۔وَالشُّعَرَاۗءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَیہ مشرکین کے دوسرے شبہے کا جواب ہے۔ مشرکین نے کہا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاعر ہے اور شعراء کی طرح شعر بناتا ہے تو یہاں اس کا جواب دیا گیا۔ یعنی شاعروں کی پیروی تو گمراہ لوگ کرتے ہیں مطلب یہ ہے کہ شعراء چونکہ خود گمراہ ہوتے ہیں اس لیے وہ اپنے اشعار میں کفر و شرک اور ضلالت وغوایت کے جو مضامین بیان کرتے ہیں، گمراہ لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں۔اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِيْ كُلِّ وَادٍ يَّهِيْمُوْنَ یہ شاعروں کے گمراہ ہونے کی پہلی دلیل ہے۔ یہ بات مشاہدے میں آچکی ہے کہ شعراء ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ وہ حق و باطل ایک ہی چیز کی مدح و ہجاد اور افراط وتفریط غرضیکہ ہر میدان میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔  وانھم یقولون۔۔ الخ  یہ ان کے غاوی (گمراہ) ہونے کی دوسری دلیل ہے کہ ان کے قول اور عمل میں موافقت نہیں ہوتی وہ زبان سے کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں۔ لیکن رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی ان دونوں گمراہیوں سے پاک ہے۔ آپ کی زبان سے صرف حق ہی نکلتا ہے اور آپ جو کچھ زبان سے فرماتے ہیں اس کے موافق عمل بھی کرتے ہیں۔اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا۔۔الخمگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور کیے انہوں نے نیک عمل اور ذکر کیا اللہ کا کثرت سے اور بدلہ لیا انہوں نے اس کے بعد کہ زیادتی کی گئی ان پر اور عنقریب معلوم ہوجائے گا ان لوگوں کو جنہوں نے زیادتی کی کہ کس انجام سے وہ دو چار ہوتے ہیں۔

مختصر ترین خلاصہ

اس سورۃ میں اللہ نے سات انبیاء کے قصص بیان فرمائے ہیں،جس میں انکی تبلیغ کی سعی اورعذاب سے دوچار ہونےوالوں کاذکر کیاہے۔انکے درمیان شکوے،بشارتیں اور تخوفات مذکور ہیں اور آخر میں دلائل کا نتیجہ بیان فرمایا فَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ فَتَكُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِيْنَ یعنی جب ثابت ہوگیا کہ برکات دہندہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں اور یہ دعوی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو اب اللہ کے سوا حاجات میں کسی کو مت پکارو ورنہ سخت عذاب ہوگا۔