یہ مسئلہ براہِ راست عقیدۂ توحید سے تعلق رکھتا ہے۔ قبر سے برکت حاصل کرنے کا تصور دراصل امتوں کی پچھلی گمراہیوں سے آیا، جبکہ اسلام نے برکت کو صرف اللہ کی ذات اور ان کے دیے ہوئے مشروع اسباب تک محدود کیا ہے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا
تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
بڑی برکت والا ہے وہ جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔
(الملک: 1)
یہ بتاتا ہے کہ برکت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے، نہ کسی قبر، نہ پتھر، نہ درخت، نہ مزار میں۔
پچھلی امتوں نے جب اپنے نیک لوگوں کی قبروں سے برکت لینے کا سلسلہ شروع کیا تو وہ رفتہ رفتہ شرک میں پڑ گئیں۔ نبی کریم ﷺ نے ہمیں اسی خطرے سے ڈرایا اور فرمایا
لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ
اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔
(صحیح بخاری: 435، صحیح مسلم: 531)
نبی ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے کبھی کسی قبر کو برکت کا ذریعہ نہیں بنایا، نہ وہاں جا کر ہاتھ پھیرا، نہ مٹی لی، نہ سلام کے علاوہ کوئی مخصوص عمل کیا۔ ان کی برکت صرف ان کی زندگی میں ان کی دعا، علم اور صحبت سے تھی۔ وفات کے بعد برکت لینا صرف ان کی سنت اور تعلیمات پر عمل کرنے میں ہے، نہ کہ قبر سے۔
لہٰذا کسی نیک شخص کی قبر سے برکت حاصل کرنے کا عقیدہ باطل اور شرک کی طرف لے جانے والا ہے۔ برکت صرف اللہ دیتا ہے، اور اس کا طریقہ قرآن و سنت کی اتباع ہے، قبروں یا مزارات کا سہارا لینا عملِ مردود ہے۔