یہ سوال سیدھا عقیدۂ توحید سے تعلق رکھتا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں “نبی ﷺ کے صدقے سے مانگنا” یعنی یہ کہنا کہ یا اللہ! فلاں حاجت نبی کے صدقے سے پوری کر دے۔ یہ طریقہ نہ قرآن میں ہے نہ سنت میں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ
اور تمہارے رب نے کہا مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا
(غافر: 60)
یعنی دعا براہِ راست اللہ سے کرنی ہے، درمیان میں کسی فوت شدہ شخصیت کو وسیلہ نہیں بنانا۔
نبی ﷺ نے بھی یہی تعلیم دی ہے کہ
إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ
جب مانگو تو اللہ سے مانگو، اور جب مدد چاہو تو اللہ سے مدد چاہو
(جامع ترمذی 2516، صحیح)
صحابہ کرامؓ کا عمل
نبی ﷺ کی وفات کے بعد کسی صحابی نے یہ نہیں کہا کہ “یا اللہ نبی کے صدقے سے بارش دے” بلکہ عمرؓ نے قحط کے وقت عباسؓ (نبی کے چچا) سے دعا کروائی اور کہا ہم نبی کے ذریعے بارش مانگتے تھے اور اب ان کے چچا کے ذریعے مانگتے ہیں۔
(صحیح بخاری 1010)
یعنی وسیلہ زندہ دعا کرنے والے شخص کا بنایا گیا، نہ کہ نبی ﷺ کے صدقے کا۔