عمل ایمان کا جز ہے الگ نہیں۔ یعنی ایمان صرف دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار کا نام نہیں بلکہ اعمال صالحہ بھی ایمان میں داخل ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ
اور اللہ ایسا نہیں کہ تمہارا ایمان ضائع کر دے۔
یہاں “ایمان” سے مراد نماز ہے جو صحابہ کرامؓ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے پڑھتے تھے۔ اس سے واضح ہوا کہ عمل (صلوۃ) کو ایمان کہا گیا۔
(البقرۃ:143)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
الإيمان بضع وسبعون شعبة، فأفضلها قول لا إله إلا الله، وأدناها إماطة الأذى عن الطريق، والحياء شعبة من الإيمان
ایمان ستر سے زیادہ شاخوں پر مشتمل ہے، سب سے اعلیٰ ”لا إله إلا الله” کہنا ہے اور سب سے ادنیٰ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے، اور حیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔
(صحیح مسلم، حدیث:35)
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ قول، عمل اور اخلاق سب ایمان کا حصہ ہیں۔ ایمان دل کی تصدیق، زبان کا اقرار اور اعضا کا عمل ہے۔ یہ نیک عمل سے بڑھتا ہے اور گناہوں سے گھٹتا ہے۔ جو شخص عمل کو بالکل ایمان سے الگ کرے، وہ کفر کے قریب ہوتا ہے۔ یعنی اعمال کو ایمان سے خارج سمجھنا گمراہی ہے، البتہ اصل بنیاد دل کا یقین اور زبان کا اقرار ہے، اوراعمال اسی کو کامل اور معتبر بناتے ہیں۔