سب سے پہلے قرآن سے یہ مسئلہ دیکھ لیں سماع موتیٰ کے مسئلہ پر قرآن خاموش نہیں ہے۔ پھر اسکے برعکس مسلک ثلاثہ کا عقیدہ ملاحظہ ہوں
اللہ نے فرمایا کہ
اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ ۭ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ ۭ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ
اگر پکارو تم انھیں تو نہیں سن سکتے وہ تمہاری دعائیں اور اگر سن لیں تو نہیں جواب دے سکتے تمہیں۔ اور قیامت کے دن انکار کردیں گے وہ تمہارے شرک کا۔ اور نہیں خبر دے سکتا تمہیں (حقیقت کی) ایسی سوائے اس کے جو سب کچھ جاننے والا ہے۔ (الفاطر-14)
یہ آیت ان لوگوں کے لئے ہے جو قبروں اور مزاروں سے وابسطہ ہیں اور انہیں پکارتے ہیں، صاف معلوم ہوگیا کہ قبر والے سنتے ہی نہیں۔
وَمَا يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ وَلَا الظُّلُمٰتُ وَلَا النُّوْرُ وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَــرُوْرُ وَمَا يَسْتَوِي الْاَحْيَاۗءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُسْمِعُ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚ وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ
اور نہیں برابر ہوسکتا اندھا اور آنکھوں والا،اور نہ تاریکیاں اور نہ روشنی ،اور نہ چھاؤں اور نہ دھوپ کی تپش، اور نہ برابر ہوسکتے ہیں زندے اور نہ مُردے۔ بلاشبہ اللہ سنواتا ہے جسے چاہے اور نہ تم (اے نبی) سنا سکتے ہو ان کو جو قبروں میں (مدفون) ہیں۔ (الفاطر-19تا22)
یہ نص قطعی ہے کہ قبر والوں کو بلانا “سنوانا” نبی ﷺ کے بس میں بھی نہیں۔ پھر عام انسان کیا کر سکتا ہے؟
قرآن کے واضح اور دوٹوک فیصلے کے برعکس مسلک ثلاثہ کا عقیدہ ملاحظہ ہوں
(بانی مسلک بریلی)احمد رضا خان صاحب
انبیاء کرامؑ کی حیات حقیقی حسی دنیاوی ہے ان پر تصدیق وعدہ الہیہ کے لئے محض ایک آن کو موت طاری ہوتی ہے پھر فوراً ان کو ویسے ہی حیات عطا فرما دی جاتی ہے۔وہ اپنی قبور میں کھاتے پیتے نماز پڑھتے ہیں۔ازواج مطہرات پیش کی جاتی ہیں وہ ان کے ساتھ شب باشی فرماتے ہیں۔
(ملفوظات اعلیٰحضرت :حصہ سوئم:صفحہ نمبر 32)
(بانی مسلک دیوبند) قاسم نانوتوی
ہمارے اور ہمارے مشائخ کے نزدیک حضرت محمد ﷺ اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور آپکی حیات دنیا کی سی ہے۔
(عقائد علماء دیوبند:صفحہ نمبر 16)
سرفراز خان صفدر (دیوبندی)
مُردوں کا ساری مخلوق کے کلام کو سننا بلاشبہ صحیح ہے۔
(سماع الموتی ٰ :صفحہ نمبر74ـ202ـ205:از سرفراز خان صفدر)
(بانی مسلک اہلحدیث)میاں نذیر دہلوی صاحب
ابو ہریرہ ؓ سے مرفوعاً یہ الفاظ آئے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا جو کوئی شخص میری قبر کے پاس درود و سلام پڑھتا ہے اسکو میں خود سن لیتا ہوں ۔
(فتاویٰ نذیریہ جلد 1:صفحہ نمبر 6-7)
علامہ وحید الزماں(اہلحدیث)
ہم اہلحدیث کے پیشوا حافظ ابن قیم نے صراحتاً سماع موتی ٰ کو ثابت کیا ہے۔اور بیشمار حدیثوں سے جنکو امام سیوطی نے شرح فی لاصدور میں ذکر کیا ہے۔مردوں کا سماع ثابت ہوتا ہے،اور سلف کا اسی پر اجماع ہے۔
(لُغات حدیث:جلد نمبر3:صفحہ نمبر 166)
نواب صدیق الحسن خا ن صاحب (اہلحدیث )
تمام مردے مومن ہوں یا کافر حصول علم ، شعور و ادراک سماع عرض اعمال اور زیارت کرنے والے کے سلام کا جواب لوٹانے میں برابر اور یکساں ہیں۔ان امور کی تخصیص محض انبیاء کرام ؑ اور صلحاء کےساتھ ہی نہیں ہے۔
(دلیل الطالب علیٰ ارجع المطالب:صفحہ نمبر840)
قرآن کے مطابق اصل عقیدہ یہی ہے کہ مردے نہیں سنتے۔ لیکن باطل فرقوں نے مردے کے سننے کا عقیدہ رکھا جو کہ شرک کی جڑ ہے اور قرآن و سنت کی روح کے خلاف ہے۔