ختم کرنا قرآن و سنت سے ثابت نہیں، بلکہ یہ ایک بدعت ہے جسے دین کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ شریعت میں مومن میت کے لیے اصل عمل دعا اور صدقہ ہے، نہ کہ ایصالِ ثواب کرنا اور مخصوص دن، مخصوص طریقے اور مخصوص آداب کے ساتھ قرآن خوانی کرانا۔ یہ سب کام دین میں اضافہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ
کیا ان کے ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین میں وہ باتیں مقرر کیں جن کی اللہ نے اجازت نہیں دی؟
(الشورى 21)
نبی ﷺ نے فرمایا
مَن أَحْدَثَ في أمرِنا هذا ما ليس منه فهو ردٌّ
جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسا کام نکالا جو اس میں سے نہیں ہے، وہ مردود ہے۔
(صحیح بخاری 2697، صحیح مسلم 1718)
ختم و ایصال ثواب جیسے اعمال نہ نبی ﷺ نے کیے، نہ صحابہؓ نے، نہ تابعین نے۔ ان کے ذریعے ثواب کی بجائے بدعت اور گناہ ملتا ہے۔ اصل طریقہ یہ ہے کہ مومن میت کے لیے دعا کی جائے اور وہ بھی انفرادی نہ کہ اجتماعی طور پر ورنہ یہ بھی دین میں اضافے کا سبب ہے۔ ہمیں دین کو اسی طرح اپنانا چاہیے جیسے نبی ﷺ اور صحابہؓ نے اپنایا۔