یہ روایت “الأنبیاء أحياء في قبورهم يصلون” (انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں) کے بارے میں ذکر کیا ہے، اس کی اسناد پر محدثین نے سخت جرح کی ہے۔
اس سند کے راوی مستلم بن سعید کے بارے میں امام ابن حجر نے کہا: رُبَّمَا وَهَمْ (کبھی کبھی وہم کرتا ہے)۔ یہ توثیق نہیں، بلکہ کمزوری کی طرف اشارہ ہے۔
اس سند کا دوسرا راوی جاج بن الأسود: امام ذہبی اور ابن حجر نے کہا: یہ ثابت بنانی سے منکر روایات بیان کرتا ہے، یعنی اس کی حدیث قابلِ حجت نہیں۔
(لسان المیزان : جلد نمبر 2 :صفحہ نمبر 175/ میزان الاعتدال:جلد نمبر1:صفحہ نمبر214)
اس سند کا تیسر راوی حسن بن قتیبہ خزاعی: محدثین کا اجماعی فیصلہ تقریباً یہی ہے کہ یہ راوی سخت ضعیف ہے
امام ذہبی: هو هالك (یہ ہلاک کرنے والا ہے) / دارقطنی: متروك الحديث / ابو حاتم: ضعيف / ازدی: واهٍ الحديث (بے بنیاد روایتیں لانے والا) / عقیلی: كثير الوهم (بہت وہمی)
(میزان الاعتدال:جلد نمبر1:صفحہ نمبر 241 / لسان المیزان:جلد نمبر2:صفحہ نمبر246)
یہ روایت سنداً سخت ضعیف بلکہ موضوع کے قریب ہے۔ اس کو بنیاد بنا کر یہ عقیدہ قائم کرنا کہ انبیاء قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں، درست نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ائمہ نے اس کو حجت نہیں مانا۔
اس کے مقابلے میں قطعی نصوصِ قرآن ہیں، جیسے کہ
ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَيِّتُونَ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ
پھر بے شک تم اس کے بعد مرنے والے ہو، پھر بے شک تم قیامت کے دن دوبارہ اٹھائے جاؤ گے۔
(المؤمنون: 15-16)
یہ صریح اعلان ہے کہ انبیاء سمیت ہر بشر موت کے قانون سے مستثنیٰ نہیں۔