|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

کافر و مشرک کی موت کے منظر میں تذکری پہلو کون کونسا ہے؟

قرآن مجید میں کافر و مشرک کی موت کے منظر کو انتہائی عبرت انگیز اور نصیحت آموز انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس منظر میں کئی تذکری پہلو شامل ہیں جو ایمان والوں کے لیے نصیحت، خبردار کرنے، اور غور و فکر کا سامان فراہم کرتے ہیں۔

حسرت و ندامت:
مرتے وقت کافر اپنی زندگی پر شدید پچھتاوے کا اظہار کرے گا، لیکن یہ ندامت بے سود ہوگی

حَتّٰىٓ إِذَا جَآءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ٱرْجِعُونِ۝ لَعَلِّىٓ أَعْمَلُ صَالِحًۭا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّآ ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآئِلُهَا۔۔۔۔ ۖ۝
یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آتی ہے تو کہتا ہے اے میرے رب! مجھے واپس بھیج دے، تاکہ میں اس دنیا میں جا کر نیک عمل کر لوں جسے میں چھوڑ آیا ہوں۔ ہرگز نہیں! یہ تو محض ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے۔
(المؤمنون 99-100)

دنیا میں کیے گئے گناہ اور کفر کا احساس موت کے وقت ہوگا، مگر واپسی ممکن نہیں ہوگی۔
ہمیں زندگی میں ہی نیک اعمال پر توجہ دینی چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ موت آجائے اور ہم حسرت میں مبتلا ہوں۔

فرشتوں کی سختی اور عذاب کی وعید:
قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ جب کافر کی روح قبض کی جاتی ہے تو اسے نہایت سختی سے نکالا جاتا ہے

وَلَوْ تَرٰٓى إِذِ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ يَتَوَفَّوْنَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَٰرَهُمْ وَذُوقُوا۟ عَذَابَ ٱلْحَرِيقِ۝
اور اگر تم دیکھو جب فرشتے کافروں کی جان قبض کرتے ہیں، ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے ہیں اور کہتے ہیں اب جلنے کے عذاب کا مزہ چکھو!
(الأنفال 50)
فرشتے کافروں کو عزت و احترام سے نہیں بلکہ سختی اور ذلت کے ساتھ موت دیتے ہیں۔
دنیا میں ظلم اور نافرمانی کرنے والوں کو انجام کا سوچ کر ڈرنا چاہیے۔

جنت کے برعکس جہنم کا وعدہ:
ایمان والوں کی موت کے وقت ان کو جنت کی بشارت دی جاتی ہے، جبکہ کافروں کو جہنم کی وعید سنائی جاتی ہے

وَلَوْ تَرٰٓىٓ إِذِ ٱلظَّٰلِمُونَ فِى غَمَرَٰتِ ٱلْمَوْتِ… ٱلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ ٱلْهُونِ۝
آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا۔
(الأنعام 93)
موت کے وقت ہی ہر شخص کو اپنے انجام کی جھلک دکھا دی جاتی ہے۔
یہ منظر انسان کو دعوت فکر دیتا ہے کہ وہ اپنی آخرت کے بارے میں سنجیدہ ہو۔

اللہ کی عدالت اور فیصلے کا انتظار:
قرآن میں واضح کیا گیا ہے کہ مرنے کے بعد سب کو اللہ کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے

وَلَا تَحْسَبَنَّ ٱللَّهَ غَٰفِلًۭا عَمَّا يَعْمَلُ ٱلظَّٰلِمُونَ ۚ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍۢ تَشْخَصُ فِيهِ ٱلْأَبْصَٰرُ۝
اور ہرگز یہ گمان نہ کرو کہ اللہ ظالموں کے اعمال سے بے خبر ہے، وہ تو انہیں بس ایک ایسے دن کے لیے مہلت دے رہا ہے جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔
(ابراہیم 42)

دنیا میں کیے گئے ظلم اور گناہ کا حساب ہر حال میں دینا ہوگا۔
انسان کو اپنی موت اور اللہ کے حضور پیشی کے دن کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
یہ آیات ہمیں دنیاوی زندگی میں سچائی کو قبول کرنے اور آخرت کی تیاری کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتی ہیں۔

مزید سوال کریں / اپنی رائے دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔