|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

مسجدِ ضرار کس نے بنائی اور کیوں؟

قرآنِ مجید نے مسجدِ ضرار کے واقعے کو واضح انداز میں بیان کیا ہے، تاکہ امت ایسے فتنوں سے باخبر رہے جو دین کے نام پر اٹھائے جاتے ہیں۔ یہ مسجد اصل میں دین کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ نفاق، تفرقہ، اور اہلِ ایمان کے خلاف سازش کا مرکز بنائی گئی تھی۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُواْ مَسْجِدًۭا ضِرَارًۭا وَكُفْرًۭا وَتَفْرِيقًۭا بَيْنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًۭا لِّمَنْ حَارَبَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ مِن قَبْلُۚ وَلَيَحۡلِفُنَّ إِنۡ أَرَدۡنَآ إِلَّا ٱلۡحُسۡنَىٰۖ وَٱللَّهُ يَشۡهَدُ إِنَّهُمۡ لَكَـٰذِبُونَ
اور وہ لوگ جنہوں نے مسجد بنائی نقصان پہنچانے، کفر کرنے، اہلِ ایمان کے درمیان تفرقہ ڈالنے، اور اس شخص کے لیے گھات کا ٹھکانہ بنانے کے لیے جو پہلے اللہ اور اس کے رسول سے لڑ چکا ہے۔ وہ ضرور قسم کھائیں گے کہ ہم نے صرف بھلائی کا ارادہ کیا تھا، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔
(التوبہ 107)

مسجدِ ضرار کو مدینہ کے منافقین نے بنایا، جن کی قیادت عبداللہ بن ابی کر رہا تھا۔ ان کا مقصد نبی کریم ﷺ کی قائم کردہ مسجدِ قباء اور مسجد نبوی کے مقابل ایک علیحدہ مرکز قائم کرنا تھا جہاں دین کی آڑ میں فتنہ پروری، سازش، اور کفار کے ساتھ خفیہ مشورے کیے جا سکیں۔

نبی ﷺ کو غزوۂ تبوک سے واپسی پر اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی مسجدِ ضرار کے مقاصد سے آگاہ فرمایا، اور آپ نے فوری طور پر حکم دیا کہ اس مسجد کو جلا کر راکھ کر دیا جائے۔

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کے نام پر قائم ہونے والا کوئی بھی عمل اگر اخلاص اور سنت کے مطابق نہ ہو، اور اس میں فتنہ، تفرقہ، یا شر شامل ہو، تو وہ اللہ کے نزدیک مردود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے عمل کو ضرار یعنی نقصان دہ قرار دیا، چاہے کرنے والے نیت کا دعویٰ کچھ بھی کریں۔

لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ دین کے کام صرف سنتِ نبوی اور اہلِ ایمان کی جماعت کے ساتھ اخلاص سے کریں، نہ کہ خود ساختہ مراکز یا شخصی قیادتوں کے ذریعے امت میں تفرقہ ڈالیں۔

مزید سوال کریں / اپنی رائے دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔