|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

اسلام کا پہلا اور بنیادی رکن شہادت ہے، یعنی شہادۃ أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ و أن محمدًا رسول اللّٰہ یہ وہ عقیدہ ہے جس پر ایمان لائے بغیر کوئی انسان مسلم نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی بعثت کا مقصد بھی یہی قرار دیا کہ وہ اپنی امت کو صرف اللہ کی بندگی کی طرف بلائیں۔ جیسا کہ اللہ  نے  فرمایا ہےکہ
 وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَٱجْتَنِبُوا۟ ٱلطَّاغُوتَ
اور یقیناً ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ (لوگو!) اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔(النحل: 36)۔

توحید کا مطلب ہے اللہ کو اس کی ربوبیت، الوہیت، اور اسما و صفات میں اکیلا ماننا۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کیا، اس نے توحید کی جڑ کاٹ دی۔ قرآن میں فرمایا کہ
إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِۦ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَآءُۚ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا
بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اُس کے ساتھ شرک کیا جائے، اور اس کے علاوہ جسے چاہے بخش دیتا ہے، اور جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے، وہ یقیناً ایک بڑا عظیم گناہ گھڑ لایا۔(النساء: 48)
 یعنی شرک ناقابلِ معافی گناہ ہے، جب تک کہ انسان توبہ نہ کرے۔

نبی ﷺ کی ساری دعوت کی بنیاد توحید تھی۔ مکہ میں 13 سال تک رسول اللہ ﷺ نے جس پیغام پر سب سے زیادہ زور دیا

وہ یہی تھا کہ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ تُفْلِحُوا  
اے لوگو! کہو: لا إله إلا الله (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں)، کامیاب ہو جاؤ گے۔ (مسند أحمد: 14361)
مشرکینِ مکہ نے اس کلمے کی سنگینی کو خوب سمجھا، اس لیے وہ اس ایک کلمے کی بنا پر دشمن بن گئے۔

توحید کو تسلیم کرنا صرف زبان سے اقرار کا نام نہیں، بلکہ دل سے یقین، اور عمل سے اس کا تقاضا پورا کرنا ضروری ہے۔
:اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
وَمَن يُسْلِمْ وَجْهَهُۥٓ إِلَى ٱللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌۭ فَقَدِ ٱسْتَمْسَكَ بِٱلْعُرْوَةِ ٱلْوُثْقَىٰ وَاِلَى اللّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ
اور جس نے اپنا چہرہ اللہ کے سامنے جھکا دیا اور وہ نیک بھی ہو تویقیناً اس نے مضبوط سہارے کو تھام لیا اورتمام کاموں کا انجام اللہ ہی کی طرف ہے۔ (لقمان: 22)
 یعنی جو دل سے اخلاص کے ساتھ اللہ کے لیے جھک جائے، وہی مضبوط رسی کو تھامنے والا ہے۔

شہادت کے پہلے جز لا إله إلا الله کا مطلب ہے کہ کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ کے۔ معبود صرف وہی ہو سکتا ہے جو خالق ہو، رازق ہو، مالک ہو، مدبر ہو، اور ہر قسم کے نفع و نقصان پر قادر ہو۔ اس کے سوا کسی کے پاس یہ صفات نہیں، تو عبادت کا استحقاق بھی صرف اسی کا ہے۔

قرآن نے صراحت سے اعلان کیا کہ اللہ کے سوا جن کو پکارا جاتا ہے، وہ کچھ اختیار نہیں رکھتے
وَٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْـًٔا وَهُمْ يُخْلَقُونَ
اور وہ (معبود) جنھیں وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں وہ کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (النحل: 20)
 اور فرمایا کہ

وَمَن يَدْعُ مَعَ ٱللَّهِ إِلَـٰهًا ءَاخَرَ لَا بُرْهَـٰنَ لَهُۥ بِهِۦ فَإِنَّمَا حِسَابُهُۥ عِندَ رَبِّهِ
اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کی عبادت کرے جس کی اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تو اس کا حساب اس کے ربّ کے پاس ہے ۔ (المؤمنون: 117)

جو لوگ اللہ کے سوا اولیاء، انبیاء، یا قبروں میں مدفون لوگوں سے مدد مانگتے ہیں، ان کا یہ عمل واضح شرک ہے۔ چاہے وہ انہیں معبود نہ کہیں، لیکن جب وہ ان سے نفع یا نقصان کی امید رکھیں، تو یہ عبادت میں شریک بنانا ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا: مَن ماتَ وهوَ يَدعُو مِن دونِ اللَّهِ ندًّا دخلَ النّارَ
جو اس حال میں مرا کہ اللہ کا شریک کرتا  تھا تو اسے جہنم میں  داخل کیا جائے گا۔ (صحیح بخاری:۴۴۹۷)۔

کفارِ مکہ کا شرک بھی یہی تھا کہ وہ اللہ کو خالق مانتے تھے مگر عبادت میں دوسروں کو شریک کرتے تھے۔
جیسا کہ قرآن میں ہے کہ
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ ٱللَّهُ
اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا ؟ تو یقیناً وہ کہیں گے اللہ نے۔ (الزمر: 38)

لیکن وہ عبادت قبروں، پتھروں، بزرگوں، اور فرشتوں کی کرتے تھے، اسی لیے اللہ نے انہیں مشرک قرار دیا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ
قُلْ إِنَّمَآ أَدْعُوا۟ رَبِّى وَلَآ أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًۭا
آپ کہ دیجے میں اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔(الجن: 20)

اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ
فَلَا تَدْعُوا۟ مَعَ ٱللَّهِ إِلَـٰهًا ءَاخَرَ فَتَكُونَ مِنَ ٱلْمُعَذَّبِينَ
لہٰذا آپ اللہ کیساتھ کسی دوسرے معبود کو مت پکاریں، کہیں آپ بھی سزا یافتہ لوگوں میں شامل ہوجائیں۔(الشعراء: 213)
یہ آیات ہر قسم کی بدعتی عبادتوں اور شرک کے دروازے بند کر دیتی ہیں۔

شہادت کے دوسرے جزو وأن محمدًا رسول اللہ کا مطلب ہے کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور سچے رسول ہیں، جن کی اطاعت ہر مسلمان پر لازم ہے۔ ان کے بعد کوئی نبی نہیں، اور ان کی لائی ہوئی شریعت آخری اور مکمل شریعت ہے۔
 اللہ نے فرمایا: مَّن يُطِعِ ٱلرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ ٱللَّهَ
  جو رسول ﷺ کی اطاعت کرے پس اس نے اللہ کی اطاعت کی۔(النساء: 80)۔

نبی ﷺ کی اطاعت کے بغیر ایمان ناقص ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ
 فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ
پس نہیں! تیرے رب کی قسم! یہ لوگ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ وہ آپ ﷺ کو اپنے باہمی جھگڑوں میں حاکم نہ بنا لیں۔(النساء: 65)
دین کے کسی معاملے میں اپنی مرضی، تقلید یا خواہش کو ترجیح دینا رسول کی نافرمانی ہے، اور یہ نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے۔

بدقسمتی سے بعض لوگ رسول اللہ ﷺ کی شان میں مبالغہ کرتے ہوئے ان کو علمِ غیب، حاجت روا، مشکل کشا، حاضر و ناظر مانتے ہیں، جو سراسر شرک ہے۔ نبی ﷺ نے خود فرمایا
لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ٱبْنَ مَرْيَمَ، إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُولُوا عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ

مجھے ایسے نہ بڑھانا جیسا کہ نصرانیوں نے مریم کے بیٹے (عیسیٰ علیہ السلام) کو بڑھایا، میں تو صرف ایک بندہ ہوں، اس لیے تم مجھے اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول کہو۔

توحید کی دعوت ہر نبی نے دی، اور یہی سب سے پہلا فرض تھا۔ قرآن  میں اللہ نے فرمایا کہ
وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِيٓ إِلَيْهِ أَنَّهُۥ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّآ أَنَا۠ فَٱعْبُدُونِ
اور ہم نے آپ ﷺ سے پہلے جو بھی رسول بھیجا، اُس کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری ہی عبادت کرو۔ (الانبياء: 25)
 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید ہر امت کا پہلا سبق تھا۔

اسی لئے کسی انسان کو مددگارِ عالم، مختارِ کل، سایۂ خدا، ظل الہی، نور من نور الله، معبود فی الصورۃ البشریہ وغیرہ کہنا خالص کفریہ کلمات ہیں۔ ایسے عقائد کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
 نبی ﷺ نے تو فرمایا: اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِي وَثَنًا يُعْبَدُ
اے اللہ! میرے قبر کو بُت نہ بنا دینا جس کی عبادت کی جائے۔(موطا امام مالک:۱۷۲)
 لیکن آج بعض لوگ انہی کاموں کو دین سمجھ کر کرتے ہیں۔

توحید نہ صرف انسان کو رب کے ساتھ جوڑتی ہے بلکہ اسے دنیاوی و خودساختہ، پاپائیت، موروثی غلامی اور ہر باطل نظام سے

آزادی دیتی ہے۔ جب انسان لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ کا اقرار کرتا ہے تو وہ ہر طاغوت، رسم، جاہلیت، اور شرک کو جڑ سے کاٹ دیتا ہے۔

اسلام کا فلاحی، معاشرتی، اور عدالتی نظام بھی اسی عقیدہ توحید پر قائم ہوتا ہے۔ جب انسان کو معلوم ہو کہ صرف اللہ نگران، حساب لینے والا اور جزا و سزا دینے والا ہے، تو وہ خود بخود عدل، دیانت، تقویٰ اور توکل کے ساتھ جیتا ہے۔

نبی ﷺ نے فرمایا: مَن قالَ لا إلهَ إلَّا اللَّهُ، وكَفَرَ بما يُعبدُ مِن دونِ اللَّهِ، حرُمَ مالُهُ ودمُهُ، وحسابُهُ على اللَّهِ
جس نے لا إله إلا الله کہا، اور جو اللہ کے سوا جسکی عبادت کی جاتی ہے اُس کا انکار کیا، اُس کا مال اور خون حرام ہو گیا (یعنی محفوظ ہو گیا)، اور اُس کا حساب اللہ پر ہے۔ (صحیح مسلم:۲۳)۔
 یعنی صرف کلمہ پڑھ لینا کافی نہیں، بلکہ غیر اللہ کی عبادت کا انکار بھی لازم ہے۔

توحید انسان کو بندگی سے اٹھا کر خلافت، عزت، اور قیادت عطا کرتی ہے۔ قرآن کہتا ہےکہ
 وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا
اور یقیناً ہم نے بنی آدم کو عزت دی، اور اُنہیں خشکی اور سمندر میں سوار کیا، اور اُنہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فضیلت بخشی۔(الإسراء: 70)
 مگر یہ عزت اسی وقت ملتی ہے جب انسان توحید پر قائم ہو، ورنہ مشرک ذلیل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا کہ
 اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ
بےشک جن لوگوں نے کفر کیا اہلِ کتاب اور مشرکین میں سے جہنم کی آگ میں ہوں گے (وہ) اس میں ہمیشہ رہیں گے یہی لوگ بدترین مخلوق ہیں۔(البینہ:۶)

کامل ایمان، صالح عمل، اور دنیا و آخرت کی کامیابی کی بنیاد توحید پر ہے، جو شرک سے بچا رہا، وہی جنت کا مستحق ہے۔

آج امتِ مسلمہ کی ذلت، پستی اور کمزوری کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہم نے توحید سے غفلت برتی، اور شرکیہ و بدعی عقائد کو اختیار کیا۔ ہم نے اولیاء، قبروں، میلوں، منتوں، اور غیر شرعی وسیلوں پر توکل کرنا شروع کیا۔ ہمیں واپس اسی توحید خالص کی طرف آنا ہوگا جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایمان تھا۔

یہ شہادت (شہادۃ أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ و أن محمدًا رسول اللّٰہ) ایک مکمل نظریہ، ایک مکمل انکار، اور ایک مکمل اقرار ہے۔  اس میں کمی یا شرک کی آمیزش دین کو جڑ سے کاٹ دیتی ہے۔ ہر مسلم پر لازم ہے کہ وہ اپنی شہادت کی تجدید کرے، اور قول، فعل، اور عقیدہ ہر سطح پر شرک سے مکمل اجتناب کرے۔