بیوہ چاہے تو عدت اپنے شوہر کے گھر گذارے اور اگر وہ جانا چاہے تو جاسکتی ہے۔ البتہ اسے نکالنا نہیں چاہئے۔ فرمایا
وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا ښ وَّصِيَّةً لِّاَزْوَاجِهِمْ مَّتَاعًا اِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ اِخْرَاجٍ ۚ فَاِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْ مَا فَعَلْنَ فِيْٓ اَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ
اور جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں (اُنھیں چاہیے کہ) اپنی بیویوں کے لیے وصیّت کر جائیں ایک سال تک خرچہ دینے کی (اور) اُنھیں (گھر سے) نہ نکالنے کی پھر اگر وہ (خود ) چلی جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں اُس میں جو کچھ وہ اپنے با رے میں کریں معروف طریقہ کےمطابق اور اللہ بہت غالب ہے بڑی حکمت والا ہے۔
(البقرہ-240)
شوہر کے گھر میں عدت گزارنے کی چند مصلحتیں
تعزیت کا حق
شوہر کی وفات کے بعد عورت کو اپنے شوہر کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ وہ صبر و تحمل کے ساتھ اس صدمے کو برداشت کر سکے۔
نسب کی حفاظت
عدت کا مقصد یہ بھی ہے کہ کسی نئے نکاح یا تعلق سے بچا جائے تاکہ نسب کی درستگی رہے۔
شرعی حکم کی تعمیل
بیوہ کے لیے شوہر کا گھر ہی وہ مقام ہے جہاں شریعت نے اسے عدت کے دوران سکونت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدت کے دوران بیوہ کے نان و نفقہ کا ذمہ دار کون؟
اگر بیوہ کے شوہر نے ترکہ چھوڑا ہے، تو اس میں سے بیوہ کا خرچہ نکالا جائے گا۔
اگر شوہر کا کوئی مال نہ ہو، تو قریبی رشتہ دار (مثلاً بیوی کے والدین یا دیگر عزیز) اس کا خرچ اٹھائیں گے۔