شفاعت (سفارش) قرآن کے مطابق صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔
کوئی نبی، ولی، فرشتہ یا بزرگ اپنی مرضی سے شفاعت نہیں کر سکتا، جب تک اللہ اجازت نہ دے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
قُل لِّلَّهِ ٱلشَّفَـٰعَةُ جَمِيعًۭا
کہہ دو ساری شفاعت اللہ ہی کے لیے ہے۔
(الزمر 44)
یعنی شفاعت کا حق، اختیار، اور فیصلہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی بندہ از خود کسی کے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔
دوسری جگہ فرمایا
مَن ذَا ٱلَّذِى يَشْفَعُ عِندَهُۥٓ إِلَّا بِإِذْنِهِۦ
کون ہے جو اُس کے ہاں سفارش کرے، مگر اُس کی اجازت سے؟
(البقرہ 255)
یہ آیت آیت الکرسی کا حصہ ہے، جو نہایت واضح انداز میں بتاتی ہے کہ کوئی بھی شفاعت کا اختیار نہیں رکھتا، جب تک اللہ اجازت نہ دے۔
حتیٰ کہ نبی ﷺ کے متعلق بھی قرآن کہتا ہے
وَلَا يَمْلِكُ ٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ ٱلشَّفَـٰعَةَ إِلَّا مَن شَهِدَ بِٱلْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
اور جنہیں وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، وہ شفاعت کا کچھ اختیار نہیں رکھتے، سوائے ان کے جو حق پر قائم ہوں اور جانتے ہوں۔
(الزخرف 86)
شفاعت کا اصل مالک اللہ ہے۔ کوئی نبی، ولی یا فرشتہ خود سے شفاعت نہیں کر سکتا، نہ کسی کو بخشوا سکتا ہے، جب تک اللہ اجازت نہ دے۔ لہٰذا شفاعت کے لیے بھی اللہ سے ہی رجوع کرنا چاہیے، نہ کہ قبروں یا بزرگوں سے۔ یہی توحید اور قرآن کا پیغام ہے۔