|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ  یونس مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 10دسویں نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے51 اکاون نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 109آیات ہیں جو11 رکوع پر مشتمل ہیں ۔اس سورة کا نام حسب دستور محض علامت کے طور پر آیت 98 سے لیا گیا ہے جس میں اشارۃً یونس (علیہ السلام) کا ذکر آیا ہے۔اس کا موضوع دعوت الی اللہ و تنبیہ ہے۔سورۃ کی ابتداء اللہ نے حروف مقطعات سے کی ہے جسکا معنی و مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔لوگ ایک انسان کے پیغام نبوت پیش کرنے پر حیران ہیں اور اسے خواہ مخواہ جادوزدہ کا الزام دے رہے ہیں، حالانکہ جو بات وہ پیش کر رہا ہے اس میں کوئی چیز بھی نہ تو عجیب ہی ہے اور نہ سحر و کہانت ہی سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ تو دو اہم حقیقتوں سے تم کو آگاہ کر رہا ہے۔ ایک یہ کہ جو اللہ اس کائنات کا خالق ہے اور اس کا انتظام عملا ًچلا رہا ہے صرف وہی تمہارا مالک و آقا ہے اور تنہا اسی کا یہ حق ہے کہ تم اس کی بندگی کرو۔ دوسرے یہ کہ موجودہ دنیوی زندگی کے بعد زندگی کا ایک اور دور آنے والا ہے جس میں تم دوبارہ پیدا کیے جاؤ گے، اپنی موجودہ زندگی کے پورے کارنامے کا حساب دو گے اور ان بنیادی سوال پر جزا یا سزا پاؤ گے کہ تم نے اسی کو اپنا رب مان کر اس کے منشا کے مطابق نیک رویہ اختیار کیا یا اس کے خلاف عمل کرتے رہے۔ یہ دونوں حقیقتیں، جو وہ تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے، اختیار تمہارا ہے خواہ تم مانو یا نہ مانو۔ وہ تمہیں دعوت دیتا ہے کہ تم انہیں مان لو اور اپنی زندگی کو ان کے مطابق بنا لو۔ اس کی یہ دعوت اگر تم قبول کرو گے تو تمہارا اپنا انجام بہتر ہوگا ورنہ خود ہی برا نتیجہ دیکھو گے۔

 :سورة یونس کا ماقبل سے ربط

 سورة توبہ میں فرمایا : فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوْا الصَّلٰوة وَاٰتُوْا الزَّکٰوةَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَھُم (توبہ رکوع 1) اور سورة یونس میں فرمایا فَلَوْ لَا کَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَھَا اِیْمَانُھَا اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ (رکوع 1)۔ یعنی اب توبہ کرنے، ایمان لانے اور اعمال صالحہ بجا لانے کا وقت ہے۔ اس لیے ایمان لے آؤ۔ ورنہ جب ہمارا عذاب آگیا تو پھر ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ یہ توصرف قوم یونس (علیہ السلام) تھی جس نے عذاب الہیٰ  دیکھ کر ایمان قبول کرلیا اور اس وقت کے ایمان لانے سے ان کو فائدہ پہنچ گیا۔ایسا معاملہ ہر ایک کے لئے نہیں ہو گا۔

 اس سے پہلی سورتوں میں مسئلہ توحید کے ہر پہلو کو تفصیل سے بیان کردیا گیا۔ اور دلائل عقلی و نقلی اور وحی سے ثابت کردیا گیا کہ اللہ کے سوا کوئی کارساز، متصرف و مختار اور مستحق نذر ونیاز نہیں۔ اب سورة یونس میں مشرکین کے اس خیال باطل کا رد فرمایا کہ اللہ کے سامنے کوئی شفیع غالب ہو جو اس کی مرضی کے خلاف اپنی بات منوا سکے۔

سورة یونس میں تین جگہ دعوائے سورۃ مذکور ہے۔

اول: اجمالاً مَامِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْ بَعْدِ اِذْنِهٖ۔۔ الخ (رکوع 1) یعنی اللہ کے سامنے کوئی شفیع غالب نہیں اور آخرت میں جن انبیاء و صلحاء (علیہم السلام) کو شفاعت کی اجازت ملے گی صرف وہی شفاعت کرسکیں گے۔ اللہ کے اذن کے بغیر کسی کو لب کشائی کی اجازت و جرات نہ ہوگی۔

ثانیہ: ضمناً وَ یَقُوْلُوْنَ ھٰؤُلَاءِ شُفَعَاءُنَا عِنْدَ اللّٰهِ (رکوع 2)

ثلاثہ: تفصیلاً قُلْ یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْ دِیْنِیْ فَلَا اَعْبُدُ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ تا وَ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (رکوع 11)۔ اس دعویٰ پر گیارہ دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ دس دلائل عقلیہ اور ایک دلیل وحی۔ دلائل میں ایک نفی شرک فی العلم پر۔ ایک نفی شرک فعلی پر اور آٹھ نفی شرک فی التصرف پر ہیں اور ان میں ایک دلیل علی سبیل الاعترف من الخصم ہے۔ دلائل کے درمیان تین جگہ دلائل کا ثمرہ مذکور ہوا ہے اور ساتھ ساتھ حسب مواقع زجریں، بشارتیں، تخویفیں اور شکوے مذکور ہیں۔

 :دلائل عقلیہ

 :پہلی عقلی دلیل

اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلقَ السَّمٰوٰتِ تا اَفَلَا تَذَکَّرُوْن (رکوع 1) ۔ ساری کائنات کا خالق ومالک اور مدبر و مختار صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس لیے اس پر کسی کا زور اور دباؤ نہیں چل سکتا۔ اس دلیل کے ضمن میں دعوائے سورۃ بھی اجمالاً مذکور ہے۔ اور آخر میں ذٰلِکُمُ اللّٰهُ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ دلیل کا ثمرہ ہے۔ یعنی وہ اللہ جو صفات مذکورہ کا حامل ہے وہی تمہارامعبود اور کارساز ہے اس لیے صرف اسی کو پکارو لِیَجْزِيَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔۔ الخ بشارت اخروی اور وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَھُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ ۔۔الخ تخویف اخروی ہے۔

 :دوسری عقلی دلیل

ھُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوْراً تا لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَّقُوْنَ سارے جہان کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ سارا نظام شمسی اسی کے اختیار و تصرف میں ہے اور وہی نظام عالم میں مدبر و متصرف ہے۔ لہٰذا صرف اسی کو پکارو۔ اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا۔۔ الخ تخویف اخروی ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ۔۔ الخ  بشارت اخروی ہے۔ وَ لَوْ یُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَھُمْ بِالْخَیْرِ۔۔ الخ (رکوع 2) زجر ہے۔ وَلَقَدْ اَھْلَکْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ۔۔ الخ تخویف دنیوی ہے۔ جس طرح پہلی قوموں نے ہمارے انبیاء (علیہم السلام) کی تکذیب کی اور اس کی پاداش میں مبتلائے عذاب ہوئے اسی طرح اگر تم میرے آخری پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلاؤ گے اور دعوائے توحید کا انکار کرو گے تو تمہارا بھی وہی حشر ہوگا۔ وَ اِذَا تُتْلیٰ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُنَا۔۔ الخ شکوہ ہے۔ مشرکین نے کہا یہ قرآن تو ہم ماننے سے رہے کیونکہ اس میں ہمارے معبودوں کی توہین ہے البتہ تم کوئی اور قرآن لے آؤ یا اسی میں ترمیم کرلو تو ہم مان لیں گے۔ قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْ اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَآءِ نَفْسِیْ” جواب شکویٰ ہے۔ قرآن میں رد و بدل کرنا میرے اختیار میں نہیں۔ میں وہی کچھ کہہ سکتا ہوں جو اللہ کی طرف سے وحی ہو۔ “ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَريٰ عَلَی اللّٰهِ کَذِبًا ” زجر ہے۔

 :تیسری عقلی دلیل

وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَضُرُّھُمْ وَ لَا یَنْفَعُھُمْ تا سُبْحٰنَهٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ اصل میں یہ زجر ہے بصورت شکویٰ ۔ لیکن دعوائے سورۃ پر عقلی دلیل بھی ہے اور اس کے ضمن میں دعوائے سورۃ بھی مذکور ہے۔ مشرکین ایسے عقل کے اندھے ہیں کہ وہ اللہ کے سوا ایسے معبودوں کو پکارتے ہیں جن کے اختیار میں نہ نقصان پہنچانا ہے نہ نفع دینا اور پھر ساتھ ہی کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے یہاں ان کے سفارشی ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سفارش کرنے یا نفع و نقصان پہنچانے کا کوئی اختیار نہیں سونپا۔ وَ یَقُوْلُوْنَ لَوْلَا اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ شکویٰ ہے۔ فَقُلْ اِنَّمَا الْغَیْبُ لِلّٰهِ۔۔ الخ جواب شکویٰ ہے۔

 :چوتھی عقلی دلیل

ھُوَ الَّذِيْ یُسَیِّرُکُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِریْن (رکوع 3) ۔ جب بحر و بر میں وہی کارساز ہے اور دریاؤں اور سمندروں میں جب ان کی کشتیاں ہولناک موجوں میں گِھر جاتی ہیں تو وہ اپنے تمام خیالی کارسازوں اور سفارشیوں کو بھول کر صرف الہٰ واحد کو پکارتے ہیں۔ جب دریاؤں اور سمندروں میں اللہ تعالیٰ بلا شرکت غیر ان کی مدد کرتا ہے تو دوسرے موقعوں پر وہ ان کی مدد کیوں نہیں کرسکتا ؟ وَ اللّٰهُ یَدْعُوْا اِلیٰ دَارِ السَّلَامِ۔۔ الخ اللہ تمہیں سلامتی(جنت) کی طرف بلاتا ہے اگر اطاعت کرو گے تو یہ تمہارے لئے  بشارت اخروی ہے۔ وَالَّذِیْنَ کَسَبُوْا السَّیِّئَاتِ۔۔ الخ تخویف اخروی۔ وَیَوْمَ نَحْشُرُھُمْ جَمِیْعًا۔۔ الخ تخویف اخروی ہے اور دلائل ماقبل کا ثمرہ بھی یعنی دنیا میں تم جن کو اللہ کے یہاں سفارشی سمجھ کر پکارتے ہو قیامت کے دن وہ خود کہیں گے۔ مَا کُنْتُمْ اِیَّانَا تَعْبُدُوْنَ اور اِنْ کُنَّا عَنْ عِبَادَتِکُمْ لَغٰفِلِیْنَ یعنی ہم تو تمہاری دعاء اور پکار سے بالکل بےخبر تھے۔ سفارش تو درکنار، ہمیں تو تمہاری پکار کا ہی علم نہیں تھا۔

 :پانچویں عقلی دلیل (علی سبیل الاعتراف من الخصم )

قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ تا فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ ۔ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ (رکوع 4) ۔ جب تم خود تسلیم کرتے ہو کہ خالق ورازق، ساری کائنات کا مالک و مختار اور مدبر اللہ تعالیٰ ہے تو پھر اللہ تعالیٰ سے کیوں نہیں ڈرتے اور شرک کیوں نہیں چھوڑتے ہو۔ فَذٰلِکُمُ اللّٰهُ رَبُّکُمُ الْحَقُّ یہ ثمرہ دلیل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ جو ان مذکورہ صفات کا حامل ہے وہی تمہارا معبود برحق اور کارساز حقیقی ہے لہٰذا حاجات و مشکلات میں صرف اسی کو پکارو۔ اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَراہُ شکویٰ ہے۔ قُلْ فَاتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّثْلِهٖ جواب شکویٰ ہے۔ مشرکین کہتے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے پاس سے قرآن بنا کر اللہ کے ذمہ لگا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ جواب دینے کا حکم دیا : اگر میں ایسا قرآن اپنے پاس سے بنا سکتا ہوں تو تم بھی کم از کم ایسی ایک ہی سورت بنا کرلے آؤ کیونکہ تم بھی اہل زبان ہو۔ اور اپنی امداد کے لیے اپنے تمام حامیوں کو بھی بلا لو۔ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُوْنَ اِلَیْکَ (رکوع 5) زجر ہے۔ وَ یَوْمَ یَحْشُرُھُمْ کَاَنْ لَّمْ یَلْبَثُوْا تخویف اخروی ہے۔ وَ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ تخویف دنیوی۔ وَ یَقُوْلُوْنَ مَتیٰ ھٰذَا الْوَعْدُ شکویٰ ہے۔ قُلْ لَّا اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا جواب شکویٰ ہے۔ تم مجھ سے پوچھتے ہو کہ عذاب کب آئے گا حالانکہ مجھے تو اپنے نفع و نقصان کا بھی علم نہیں۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ علم الٰہی میں عذاب کا ایک وقت مقرر ہے اور وہ اپنے مقررہ وقت پر ضرور آئے گا۔ قُلْ اَرَاَیْتُمْ اِنْ اَتٰکُمْ عَذَابُ اللّٰهِ زجر مع تخویف دنیوی۔ وَ یَسْتَنْبِئُوْنَکَ اَ حَقٌّ ھُوَ شکویٰ قُلْ اِيْ وَ رَبِّيْ اِنَّهٗ لَحَقٌّ جواب شکویٰ ہے۔ وَ لَوْ اَنَّ لِکُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ۔۔ الخ (رکوع 6) تخویف دنیوی ہے۔

 :چھٹی عقلی دلیل

اَلَا اِنَّ لِلّٰهِ مَا فِیْ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ تا ھُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ (رکوع 6) زمین و آسمان اور ساری کائنات کا مالک و مختار اللہ تعالیٰ ہی ہے اور موت وحیات بھی اسی کے اختیار میں ہے پھر اس کے ساتھ اوروں کو کیوں پکارتے ہو۔ یَا اَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْکُمْ مَّوْعِظَةٌ۔۔ الخ یہ ترغیب الی القرآن ہے۔

 :ساتویں عقلی دلیل

قُلْ اَرَاَیْتُمْ مَّا اَنْزَلَ اللّٰهُ لَکُمْ تا اَمْ عَلَی اللّٰهِ تَفْتَرُوْنَ اس دلیل سے شرک فعلی کی نفی مقصود ہے۔ جب ہر چیز کا مالک و خالق اللہ تعالیٰ ہے اور وہی زمین و آسمان سے تمہاری روزی کا انتظام کرتا ہے۔ یہ غلے، میوے، پھل اور چوپائے تمہارے لیے اسی نے پیدا کیے۔ پھر تم نے اپنی مرضی سے ان کو حلال و حرام کرنا شروع کردیا حالانکہ اللہ نے تمہیں اس کی کوئی اجازت نہیں دی۔

 :آٹھویں عقلی دلیل

وَ مَا یَکُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّ مَاتَتْلُوْا مِنْهُ تا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ (رکوع 7) ۔ یہ دلیل نفی شرک فی العلم پر قائم کی گئی ہے۔یعنی ہر چیز کا علم اللہ ہی کو ہے اَلَا اِنَّ اَوْلِیَاءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ ۔۔الخ ماننے والوں کے لئے بشارت اخروی۔ وَ لَایَحْزُنْکَ قَوْلُھُمْ اس میں نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی کہ اگر یہ نہیں مانتے تو آپ غم نہ کریں۔

 :نویں عقلی دلیل

اَلَا اِنَّ لِلّٰهِ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِیْ الْاَرْضِ ۔ تمام انبیاء و اولیاء اور ملائکہ کرام (علیہم السلام) اللہ تعالیٰ کے ملک اور تصرف میں ہیں اور سب اس کے محتاج اور نیاز مند ہیں پھر تم ان کو کیوں پکارتے ہو۔ وَ مَا یَتَّبِعُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ الخ زجر برائے مشرکین۔

 :دسویں عقلی دلیل

ھَوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَکُمْ الَّیْلَ لِتَسْکُنُوْا فِیْهِ وَالنَّھَارَ مُبْصِرًا۔۔ الخ (رکوع 7) ۔ دن اور رات کے نظام میں بہت نشانیاں ہیں سننے والوں کے لئے۔ وَ قَالُوْا تَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا شکویٰ۔ مشرکین کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو دنیا میں اپنا نائب بنا رکھا ہے اور انہیں کچھ اختیارات سونپ رکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے اس قول کا یہاں رد فرمایا۔ قرآن میں جہاں کہیں شفاعت قہری کی نفی کی گئی ہے وہاں مشرکین کے اس قول کا رد بھی فرمایا گیا ہے جیسا کہ سورة بقرہ میں فرمایا۔ وَ قَالُوْا اتَّخَذُوْا اللّٰهُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗ ، بَلْ لَّهٗ مَا فِیْ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ، کُلٌّ لَّهٗ قَانِتُوْنَ (رکوع 14) ۔ سُبْحٰنَهٗ ۔ ھُوَ الْغَنِیُّ۔۔ الخ پانچ وجوہات سے شکوے کا جواب ہے۔ قُلْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ۔۔ الخ زجر مع تخویف اخروی۔ وَ اتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ نُوْحٍ۔۔ الخ (رکوع 8)۔ نےتخویف دنیوی کا ایک تفصیلی نمونہ یعنی دیکھ لو قوم نوح سے ساتھ کیا کیا ہم نے۔ ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهٖ رُسُلًا الخ تخویف دنیوی کا ایک اجمالی نمونہ۔ ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِھِمْ مُّوْسٰی وَ ھٰرُوْنَ تا وَ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ (رکوع 9)۔ تخویف دنیوی کا دوسرا تفصیلی نمونہ یعنی دیکھ لو فرعون ہماری آیات سے تکبر کرتا تھا،جب اسے ہم نے پکڑا تو عذاب دیکھ کر ایمان لایا تب اسے اس کے ایمان نے فائدہ نہ دیا۔ فَاِنْ کُنْتَ فی شَکٍّ مِّمَّا اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ ۔۔الخ زجر ہے۔ قُلْ یَا اَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاءَکُمُ الْحَقُّ۔۔ الخ (رکوع 11)۔ مسئلہ توحید کو ماننے اور حق کو قبول کرنے کی ترغیب۔

:گیارہویں دلیل( دلیل وحی)

وَ اتَّبِعْ مَا یُوْحٰی اِلَیْکَ الخ سورت کے اختتام پر دلیل وحی لائی گئی اور رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اعلان کرنے کا حکم دیا گیا کہ دعوائے توحید اور اس کے دلائل جو بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل فرمائے ہیں میں صرف انہی کا اتباع کروں گا اور اللہ تعالیٰ نے شرک کے حق میں کوئی دلیل نازل نہیں کی اسلیے شرک کی تمام انواع و اقسام باطل ہیں۔ وَ اصْبِرْ حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰهُ وَ ھُوَ خَیْرُ الْحَاکِمِیْنَ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے۔ یعنی آپ پر جو وحی نازل کی گئی ہے آپ اس کی پیروی کریں اور مسئلہ توحید کی تبلیغ فرمائیں اور مشرکین کی طرف سے آنے والی تمام تکلیفوں اور مصیبتوں پر صبر و استقلال کا دامن تھامے رہیں اور آپ کے عزم و ثبات میں تزلزل اور پائے استقامت میں جنبش نہ آنے پائے۔ آخر کار فیصلہ آپ ہی کے حق میں ہوگا مشرکین ذلیل و خوار اور مغضوب و مقہور ہونگے۔ اور آپ اور آپ کی جماعت اپنے موقف میں کامیاب اور دنیا و آخرت میں کامران و سرخرو ہونگے۔

 :مختصرترین خلاصہ

 دعائے سورت، نفئ شفاعت قہری۔ یہ دعویٰ سورت میں تین جگہ مذکور ہے۔ پہلے اجمالاً مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْ بَعْدِ اِذْنِهٖ پھر دلیل کے ضمن میں وَ یَقُوْلُوْنَ ھٰؤلَاءِ شُفَعَاءُنَا عِنْدَ اللّٰهِ اور تیسری بار تفصیلاً قُلْ یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْ دِیْنِیْ الایة اس دعوے کے ثبوت میں گیارہ دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ دس دلائل عقلیہ اور ایک دلیل وحی۔ دس دلائل عقلیہ میں سے ساتویں دلیل نفی شرک فعلی اور آٹھویں نفی شرک فی العلم کے لیے ہے اور باقی نفی شرک فی التصرف کے لیے ہیں۔ ان میں پانچویں دلیل علی سبیل الاعتراف من الخصم ہے۔ تینوں جگہوں میں دلائل کا ثمرہ بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سورت میں موقع بموقع خصوصی زجریں، شکوے، تخویفیں اور بشارتیں بھی مذکور ہیں۔