سورۃ مریم مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 19 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے44 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 98آیات ہیں جو6 رکوع پر مشتمل ہیں۔اس سورۃ کا نام آیت نمبر16 واذکر فی الکتب مریم سے ماخوذ ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ سورة جس میں مائی مریم کا ذکر آیا ہے۔اس میں سب سے اہم تر یہ ہے کہ اس کے پہلے رکوع میں زکریا علیہ السلام کا اللہ تعالی سے اولاد کی دعا کرنا اور انہیں یحییٰ جیسا بیٹا عطا کیا جانا مذکور ہوا دوسرے رکوع میں مائی مریم کے ہاں عیسی ؑکی ولادت کا ذکر ہے تیسرے رکوع میں ابراہیم کی تبلیغی مساعی(کوشش)پر روشنی ڈالی گئی چوتھے رکوع میں مختلف انبیاء کرام کا ذکر فرمایا گیا ہے جبکہ آخری 2رکوعات میں اللہ تعالی کی ذات و صفات کا بیان اس کے لئے اولاد ماننے کا رد ّاور جہنم کے عذابات کا بیان ہے۔
سورة مریم کا سورۃ الکھف سے ربط
سورة کہف میں مشرکین کے شبہات کا ازالہ کیا گیا۔ جو شبہات باقی رہ گئے تھے۔ ان کا جواب سورة مریم میں دیا گیا ہے۔ گویا سورة مریم سورة کہف کے لیے بمنزلہ تتمہ(اضافی) ہے۔
مضمون کے اعتبار سے سورۃ مریم کے دو حصے ہیں
پہلا حصہ ابتدائے سورۃ سے لے کر رکوع 4 کے آخر ھل تعلم لہ سمیا تک ہے۔ دوسرا حصہ رکوع 5 کی ابتداء و یقول الانسان سے لے کر سورة کے آخر تک ہے۔
پہلا حصہ : پہلے حصے میں مشرکین کے شبہات کا جواب دیا گیا ہے۔ کچھ شبہات انبیاء (علیہم السلام) سے متعلق ہیں۔ ایک شبہ مریم صدیقہ کے بارے میں اور ایک فرشتوں کے بارے میں ہے۔ پہلا شبہہ زکریا (علیہ السلام) کے بارے میں تھا۔ یہودی ان کو متصرف جان کر پکارتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کی آخری عمر میں خارق عادت کے طور پر ان کے یہاں اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمایا تھا اور زکریا (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے فرزند عطا کرنے کی درخواست کی تھی۔ دوسرا شبہہ مریم اور عیسیٰ (علیہما السلام) کے بارے میں تھا۔ نصرانیوں کا خیال تھا کہ مریم کے پاس بےموسم کے پھل آتے تھے اور عیسیٰ (علیہ السلام) مردوں کو زندہ کرتے، کوڑھیوں اور مادر زاد اندھوں کو صحیح کردیتے تھے اور مٹی کے جانوروں میں جان ڈال دیتے تھے۔ جیسا کہ سورة آل عمران رکوع 4 او ر5 میں گذر چکا ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دونوں مافوق البشر طاقت اور قدرت کے مالک تھے، اس لیے ان کو پکارنا چاہیے۔ دوسرے رکوع میں اس شبہہ کا جواب دیا گیا کہ مریم صدیقہ تو خود اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی کر رہی ہیں اور اسی طرح عیسیٰ (علیہ السلام) بھی صاف اعلان کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ میرا اور تم سب کا معبود ہے۔ تیسرا شبہہ ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں تھا یہود و نصاریٰ اور مشرکین عرب ان کو کارساز سمجھ کر پکارتے تھے۔ تیسرے رکوع میں اس کا جواب دیا گیا کہ وہ خود معبودان باطلہ سے بیزار تھے اور انہوں نے ان کے خلاف آواز اٹھائی تھی کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے اس لیے ان کو حاجات میں غائبانہ مت پکارو۔ ان کے علاوہ تین پیغمبروں (موسیٰ، اسماعیل اور ادریس علیہم السلام) کا مختصر ذکر کیا گیا، ان تینوں کو بھی پکارا گیا ،موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا و نادینہ ۔۔الخ موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم ہی نے نبوت عطا کی اور ہارون (علیہ السلام) کو ان کا معاون بنایا ہر چیز ہم نے ان کو دی اس لیے وہ بھی کارساز نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح اسماعیل (علیہ السلام) بھی ہمارے بڑے فرماں بردار بندے تھے خود بھی ہماری عبادت کرتے تھے اور گھروالوں کو بھی الہٰ واحد کی عبادت کا حکم دیتے تھے اس لیے وہ بھی پکار کے لائق نہیں اسی طرح ادریس (علیہ السلام) کو بھی ہم ہی نے درجاتِ عالیہ عطا فرمائے تھے اس لیے وہ بھی کارساز نہیں ہوسکتے۔ اس کے بعد ان تمام انبیاء (علیہم السلام) کے بارے میں فرمایا وہ سب اللہ کی مخلوق اور اپنے آباء و اجداد کی اولاد تھے اور محتاج تھے اس لیے وہ کارساز اور متصرف نہیں ہوسکتے۔ فرشتوں کے بارے میں یہ شبہہ تھا کہ وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے قریب رہتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض اختیارات ان کو دے رکھے ہیں۔ مشرکین کہتے وہ اللہ کی بیٹیاں اور اس کے نائب ہیں۔ و ما نتنزل الا بامر ربک تا و ما کان ربک نسیا (رکوع 4) میں اس کا جواب دیا گیا کہ فرشتے تو خود اللہ تعالیٰ کے محکوم ہیں اور اقرار کر رہے ہیں کہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر زمین پر بھی نہیں اتر سکتے۔ اس لیے جو عاجز اور محکوم ہوں وہ کارساز نہیں ہوسکتے درمیان میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر کے بعد فاختلف الاحزاب من بینھم میں اور پھر چھ انبیاء (علیہم السلام) کے ذکر کے بعد فخلف من بعدھم خلف ۔۔الخ میں ایک سوال مقدر کا جواب دیا گیا ہے۔سوال یہ تھا کہ جب تمام انبیاء (علیہم السلام) اللہ ہی کو پکارتے تھے۔ تو پھر ان کو متصرف جان کر کیوں پکارا گیا تو اس کا جواب دیا کہ ان کے بعد ناخلف لوگ، علماء سو اور پیران سیاہ کار پیدا ہوئے جنہوں نے محض نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے لوگوں کو گمراہ کیا اور ان کو شرک کی تعلیم دی۔ اس حصے کے آخر میں رب السموات والارض۔۔ الخ میں شبہات دور کرنے کے بعد بطور ثمرہ اصل دعوی کا ذکر کیا گیا کہ زمین و آسمان کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ ہی ہے، اس کا کوئی ہمسر اور ہم صفت نہیں اس لیے حاجات میں صرف اسی کو پکارو۔
دوسرا حصہ : دوسرے حصہ میں شکوے، زجریں، تخویفیں اور بشارتیں اور رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی مذکور ہے۔ اور سورۃ کے اختتام پر وہی مضمون دہرایا گیا ہے۔ جو سورة کہف کی ابتداء میں ذکر کیا گیا۔ وہاں فرمایا تھا۔ قرآن ان لوگوں کو ڈر سنانے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے لیے ولد یعنی نائب تجویز کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیارات اپنے برگزیدہ بندوں کو سونپ دئیے ہیں اور ان لوگوں کو خوشخبری سنانے کے لیے جو اللہ تعالیٰ پر خالص ایمان لاتے اور نیک کام کرتے ہیں۔ یہاں بھی وہی مضمون ذکر کیا گیا۔ البتہ پہلے گروہ کو قوما لدا (جھگڑالو لوگ) سے اور دوسرے فریق کو المتقین (اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور شرک سے بچنے والے) سے تعبیر فرمایا۔ اس حصے میں دو خصوصی باتیں مذکور ہیں۔ اول واتخذوا من دون اللہ الھۃ ۔۔الخ (رکوع 5) معبودان باطلہ کی عبادت سے مشرکین کا مقصود یہ تھا کہ وہ دنیا میں ان کی مدد و کارسازی کریں۔ دوم لا یملکون الشفاعۃ الخ (رکوع 6)۔ شفاعت قہری کی نفی یعنی معبودانِ باطلہ مشرکین کی سفارش نہیں کرسکیں گے اور نہ ان کے کام آسکیں گے۔
مختصر ترین خلاصہ
یہ سورۃ مضامین کے اعتبار سے دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ میں انبیاء (علیہم السلام) اولیاء اللہ اور فرشتوں کے بارے میں مشرکین کے شبہات کا جواب دیا گیا۔ دوسرے حصے میں شکوے، زجریں، تخویفیں اور بشارتیں اور رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی مذکور ہے۔یقیناً اس نے احاطہ کر رکھا ہے ان کا اور شمار کر رکھا ہے انہیں گن گن کراورروز قیامت ان میں سے ہر ایک حاضر ہوگا اس کے حضوراکیلا اکیلا۔تب ہم اس سے اپنی دی ہوئی مہلت کا حساب لیں گے۔
Download PDF