سورۃ لقمان مدنی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 31 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے56 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 34آیات ہیں جو4 رکوع پر مشتمل ہیں۔اس سورۃ کا نام اس سورۃ کی آیت نمبر 12 وَلَقَدْ اٰتَيْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَةَ۔۔الخ سے ماخوذ ہے۔اس سورة کے دوسرے رکوع میں وہ نصیحتیں نقل کی گئی ہیں جو لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ اسی مناسبت سے اس کا نام لقمان رکھا گیا ہے۔اس سورة میں لوگوں کو شرک کی لغویت و نامعقولیت اور توحید کی صداقت و معقولیت سمجھائی گئی ہے، اور انہیں دعوت دی گئی ہے کہ باپ دادا کی اندھی تقلید چھوڑ دیں، کھلے دل سے اس تعلیم پر غور کریں جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیش کر رہے ہیں، اور کھلی آنکھوں سے دیکھیں کہ ہر طرف کائنات میں اور خود ان کے اپنے نفس میں کیسے کیسے صریح آثار اس کی سچائی پر شہادت دے رہے ہیں۔اس سلسلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ کوئی نئی آواز نہیں ہے جو دنیا میں یا خود دیار عرب میں پہلی مرتبہ ہی اٹھی ہو اور لوگوں کے لیے بالکل نامانوس ہو۔ پہلے بھی جو لوگ علم و عقل اور حکمت و دانائی رکھتے تھے وہ یہی باتیں کہتے تھے جو آج محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ رہے ہیں۔ تمہارے اپنے ہی ملک میں لقمان نامی حکیم گزر چکا ہے جس کی حکمت و دانش کے افسانے تمہارے ہاں مشہور ہیں، جس کی ضرب الامثال اور جس کے حکیمانہ مقولوں کو تم اپنی گفتگوؤں میں نقل کرتے ہو، جس کا ذکر تمہارے شاعر اور خطیب اکثر کیا کرتے ہیں۔ اب خود دیکھ لو کہ وہ کس عقیدے اور کن اخلاقیات کی تعلیم دے کر گیا تھا۔
:سورۃ لقمان کا ماقبل سے ربط
سورۃ روم میں بیان ہوا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے،اللہ تمہیں ضرور فتح دے گا بشرطیکہ تم شرک نہ کرو اور توحید پر قائم رہو۔اب اس سورۃ میں بیان ہوگا کہ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ ۔۔الخ (رکوع4)یادرکھواللہ کایہ وعدہ(قیامت بھی) سچا ہے ، اگر فلاح و کامیابی کا راستہ چاہتے ہو تو یہ وہی راستہ ہے جس کا پیغام نصحیت لقمان ؒ نے اپنے بیٹے کودیاتھا۔
الم تلک ایت۔۔ الخ۔ یہ تمہید مع ترغیب ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ اس کتاب حکیم سے محسنین کیا اثر قبول کرتے ہیں اور ان کی جزاء کیا ہوگی نیز معاندین پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے اور ان کی سزا کیا ہوگی۔ ھدی ۔۔الخ، المحسنین نیک روی اختیار کرنے والے اور اخلاص کے ساتھ اعمال حسنہ بجا لانے والے۔ الذین یقیمون الصلوۃ ۔۔الخ یہ المحسنین کی صفت ہے۔اولئک علی ھدی ۔۔الخ، یہ محسنین کے لیے بشارت اخروی ہے یعنی مذکورہ بالا اوصاف والے لوگ واقعی اللہ کی توفیق سے سیدھی راہ پر ہیں اور آخرت میں نجات و فلاح کے مستحق بھی یہی لوگ ہونگے۔ ومن الناس۔۔ الخ، یہ محسنین کے مقابلے میں معاندین پر زجر اور ان کے لیے تخویف اخروی ہے محسنین کے مقابلے میں کچھ ایسے بد کردار اور ضدی لوگ بھی موجود ہیں جو ہر باطل اور بیہودہ بات کی پیروی کرتے اور لوگوں کے دلوں میں شبہات شرکیہ ڈال کر ان کو راہ راست سے بہکاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے سامنے جب ہماری آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ رخ پھیر لیتے ہیں گھمنڈ کرتے ہوئے ،گویا کہ سنا ہی نہیں، جیسے کہ اس کے کانوں میں بہرہ پن ہے ان کے لیے ذلت آمیز اور رسوا کن عذاب تیار ہے۔ ان الذین۔۔ الخ، یہ محسنین کے لیے بشارت اخروی ہے یعنی جو لوگ اللہ کی خالص توحید پر ایمان لائے اور پورے اخلاص کے ساتھ نیک عمل کیے ان کیلئے بیشمار نعمتوں کے باغ ہوں گے جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، یہ اللہ تعالیٰ کا نہایت ہی پختہ وعدہ ہے جو لامحالہ پورا ہوگا۔
خلق السموت۔۔ الخ تمہید کے بعد پہلی عقلی دلیل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو پیدا کیا اور ستونوں کے بغیر ان کو تھام رکھا ہے، زمین پر پہاڑ رکھ دئیے تاکہ وہ ڈانواں ڈول نہ ہو اور اس پر ہر قسم کی مخلوق پیدا کی اور آسمان سے بارش برسا کر زمین سے انواع و اقسام کی عمدہ اور نفع بخش نباتات پیدا کی۔ بغیر عمد ترونہا۔ یعنی وہاں سرے سے ستون ہیں ہی نہیں اس لیے نظر کیا آئیں۔ ھذا خلق اللہ ۔۔الخ۔ یہ تمام مذکورہ چیزیں تو اللہ کی مخلوق ہیں اے مشرکین ! اللہ کے سوا جن کو تم نے متصرف و کارساز سمجھ رکھا ہے ذرا دکھاؤ تو سہی انہوں نے کیا کچھ پیدا کیا ہے جب ساری کائنات کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ ہی ہے تو لامحالہ سب کا کارساز بھی وہی ہے اور وہی ہر قسم کی عبات اور پکار کا مستحق ہے اور معبودان باطلہ چونکہ ایک ذرے کے بھی خالق نہیں اس لیے وہ معبود اور کارساز ہونے کے لائق بھی نہیں۔بل الظلمون۔۔ الخ یہ ماقبل سے اضراب ہے یعنی یہ بات نہیں کہ معبودان باطلہ کی کوئی مخلوق دیکھ کر انہوں نے ان کے مستحق عبادت ہونے پر استدلال کیا ہے بلکہ یہ صریح گمراہی میں ہیں اور ان سے قوت فہم سلب کرلی گئی ہے اور وہ ٖظلالت و جہالت کی اس حد کو پہنچ چکے ہیں کہ مخلوق کی عبادت اور پکار میں مصروف ہیں۔ ولقد اتینا۔۔ الخ، یہ توحید پر نقلی دلیل ہے یعنی جس طرح عقل سے بطلان شرک واضح ہے اسی طرح نقل بھی بطلان شرک پر شاہد ہے۔ چنانچہ لقمان ؒجو محسنین میں سے تھا اس کو ہم نے حکمت اور دانائی عطا کی تو اس نے اپنے بیٹے کو حکیمانہ نصائح کرتے وقت سب سے پہلے شرک سے بچنے کی نصیحت کی۔ واذ قال لقمان ۔۔الخ، یہاں سے لے کر رکوع کے آخر تک لقمان کی حکیمانہ پند و نصائح کا ذکر ہے۔ پند و نصیحت میں لقمانؒ نے بلاشبہ حکیمانہ انداز اختیار کیا۔ سب سے پہلے خالق حقیقی کا حق بتایا۔ اس کے بعد دوسری باتوں کی وصیت کی۔ لا تشرک باللہ۔۔الخ اللہ کے عبادت، دعاء اور پکار میں کسی کو شریک مت بنانا بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ووصینا۔۔ الخ یہ ادخال الٰہی ہے۔ لقمان نے اپنے بیٹے کو اللہ کا حق ادا کرنے کی نصیحت کی تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے والدین کے حقوق ادا کرنے اور ان سے حسن سلوک کا حکم دیا اور ساتھ ہی فرما دیا کہ والدین کا اگرچہ بہت حق ہے انہوں نے تیری پرورش کی اور تیری خاطر بڑی تکلیفیں اٹھائیں اس لیے ان کی اطاعت اور ان سے نیک سلوک تجھ پر فرض ہے ۔لیکن اگر وہ تجھ کو شرک پر مجبور کریں تو اس معاملے میں ہرگز ان کی اطاعت نہ کرنا۔ وھنا علی وھن، کمزوری پر کمزری یعنی جس قدر جنین سے نشو و نما پاتا ہے اسی قدر والدہ کمزوری کا شکار ہوتی جاتی ہے۔ پھر دو سال بچے کو دودھ پلاتی ہے۔ والدہ چونکہ بچے کی خاطر بہت تکلیف اٹھاتی ہے اس لیے وہ زیادہ شکر گزاری کی مستحق ہے۔ ان اشکر لی الخ۔ انتفسیریہ ہے اور یہ وصینا کا بیان ہے۔وان جاھداک ۔۔الخ، اگر ماں باپ تجھ پر زور ڈالیں اور تجھے شرک پر مجبور کریں تو اس معاملے میں ان کی ہرگز اطاعت نہ کر البتہ دنیا میں ان کے دوسرے حقوق ادا کرتا رہ اور اطاعت صرف اسی کی کر جو توحید پر قائم ہو اور شرک سے بیزار ہو۔ پھر قیامت کے دن تم سب میرے سامنے حاضر ہوگے تو وہاں ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا و سزا دی جائیگی۔ یبنی انہا۔۔ الخ۔ یہ کلام لقمان ہے اس میں ایک طرف تو جزاء وسزا کی طرف اشارہ ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے علم غیب کلی اور اس کی قدرت کاملہ کا بیا ن ہے۔یبنی اقم ۔۔الخ، بیان توحید کے بعد بیٹے کو امر مصلح یعنی صلوۃ قائم کرنے کا حکم دیا جو توحید پر قائم رہنے اور اعمال صالحہ بجا لانے میں معاون ہے۔ وامر بالمعروف۔۔ الخ اپنی تکمیل کے بعد دوسروں کی تکمیل کی طرف قدم اٹھاؤ توحید اور حسنات کی طرف دوسروں کو دعوت دو اور شرک اور دیگر منکرات سے دوسروں کو منع کرو۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں تمہیں جس قدر مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑے ان کو صبر وہمت سے برداشت کرنا۔ راہ حق میں اور تبلیغ و ارشاد پر، مصائب و آلام پر صبر کرنا نہایت اہم امور اور بلند مکارم اخلاق میں سے ہے۔ولا تصعر خدک۔۔ الخ، عبادات کے بعد لقمان نے اپنے بیٹے کو اخلاق اور حسن معاشرت کی نصیحت فرمائی۔ یعنی دوسروں کو حقیر سمجھ کر اور کبر و غرور کی بناء پر ان سے منہ نہ موڑ بلکہ عاجزی، تواضع اور انس و محبت کے ساتھ ان سے برتاؤ کر۔ ولا تمش۔۔ الخ، اور زمین میں اکڑ کر اور اترا کر نہ چل کیونکہ اللہ تعالیٰ تکبر کی چال چلنے والے اور گال پھلا کر بات کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔ ان اللہ لا یحب۔۔ الخ۔ واقصد۔۔ الخ، چلنے میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز بھی قدرے پست رکھ کیونکہ سب سے قبیح اور کریہہ آواز گدھوں کی آواز ہے۔ گویا بلند اور کریہہ آواز سے گفتگو کرنا آداب کلام اور حسن معاشرت کے خلاف ہے۔ ان انکر الاصوات ۔۔الخ، جملہ ماقبل کے لیے تعلیل ہے۔ لقمان ؒنے اپنے فرزند کو افعال و اقوال میں میانہ روی اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی۔ الم تر وان اللہ۔الخ، یہ توحید پر دوسری عقلی دلیل ہے جس سے نفی شرک فی التصرف مقصود ہے تم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنی قدرت سے زمین و آسمان کی ہر چیز کو تمہارے کاموں میں لگا دیا ہے اور تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں بتمام و کمال تمہیں عطاء فرمائی ہیں ان تمام امور میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں لہٰذا وہی سب کا کارساز ہے اور وہی عبادت اور پکار کے لائق ہے اور کوئی نہیں۔ ومن الناس۔۔ الخ، یہ معاندین پر زجر ہے یعنی ہم تو مسئلہ توحید کو عقل و نقل کے دلائل کے ساتھ بیان کرتے ہیں لیکن لوگ ماننے کے بجائے الٹا توحید میں مجادلہ کرتے ہیں حالانکہ ان کے پاس نہ عقل و نقل کی کوئی دلیل ہے نہ وحی کی۔علم سے دلیل عقلی، ھدی سے دلیل وحی اور کتاب منیر دلیل نقلی مراد ہے۔واذا قیل۔۔ الخ، یہ شکوہ ہے اور جب ان مشرکین سے کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جو نور ہدایت نازل فرمایا اس کی پیروی کرو اور اسے مان لو تو صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو اپنے باپ دادا کے دین پر ہی چلیں گے۔ اولو کان الشیطان۔۔ الخ۔یہ مشرکین پر انکار و تعجب ہے یعنی اگرچہ شیطان ان کے باپ دادا کو شرک میں مبتلا کر کے جہنم کی طرف بلاتا رہا ہو تو کیا پھر بھی وہ انہی کے دین پر چلیں گے۔ ومن یسلم۔۔ الخ، محسنین کے لیے بشارت اخروی ہے یعنی باپ دادا کی اندھادھند پیروی سے آخرت میں نجات نہیں ہوگی بلکہ فلاح و نجات نیک روش سے ملے گی۔ جس شخص نے اپنے تمام امور کو اللہ کے سپرد کردیا اور اپنے ارادوں سے دستبردار ہوگیا۔ وھو محسن اور وہ تمام اعمال میں مخلص اور رضا الٰہی کا طالب ہو تو اس نے سب سے مضبوط کڑی کو پکڑ لیا۔ بس فلاح و نجات ایسے محسنین کے لیے ہے۔ والی اللہ عاقبۃ الامور تمام معاملات اللہ کے سپرد ہیں وہی ہر چیز میں متصرف ہے اور ہر چیز کا انجام بھی اسی کے اختیار میں ہے اس لیے اس کے سوا کوئی متصرف و مختار نہیں۔ ومن کفر۔۔ الخ، یہ معاندین کے لیے تخویف اخروی اور رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے۔ یعنی اگر مشرکین ضد وعناد کی وجہ سے انکار کرتے ہیں تو اس سے آپ غمزدہ نہ ہوں قیامت کے دن یہ سب میرے سامنے حاضر ہوں گے تو میں ان کے تمام اعمال ان کے سامنے رکھوں گا میں تو ان کے دلوں کی باتیں بھی جانتا ہوں۔ تمتعہم قلیلا۔۔ الخ۔ دنیا میں ان کو جو میں نے زندگی دے رکھی ہے یہ تو صرف چند روزہ ہے اس کے بعد انہیں چار و ناچار شدید ترین عذاب میں مبتلا ہونا ہے۔ وہاں اپنے تمام کرتوتوں کی پوری پوری سزا پائیں گے۔ ولئن سالتھم۔۔ الخ، یہ توحید پر تیسری عقلی دلیل ہے علی سبیل الاعتراف من الخصم۔ یعنی مشرکین کو خود اس بات کا اعتراف ہے کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ تعالیٰ ہے جب ہر چیز کا خالق اللہ ہے تو لا محالہ ہر چیز میں متصرف اور سب کا کارساز بھی وہی ہوگا۔ قل الحمد للہ یہ دلائل مذکورہ کا ثمرہ ہے یعنی دلائل مذکورہ سے ثابت ہوا کہ تمام صفات کارسازی کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور اس کے سوا کوئی کارساز اور متصرف و مختار نہیں اور نہ اس کے سوا کوئی عبادت اور پکار کے لائق ہے لیکن مشرکین کی جہالت و نادانی کا یہ عالم ہے کہ وہ اس حقیقت سے سراسر جاہل ہیں۔ للہ ما فی السموت ۔۔الخ، یہ توحید پر چوتھی عقلی دلیل ہے۔ ساری کائنات کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے اور اس کا مالک اور اس میں متصرف بھی وہی ہے اور پھر وہ سب سے بےنیاز بھی اور تمام صفات کمال سے متصف بھی۔ لہٰذا عبادت اور پکار کے لائق بھی وہی ہے اور کوئی نہیں۔ولو ان ۔۔الخ، یہ توحید پر پانچویں عقلی دلیل ہے اور اس سے نفی شرک فی العلم مقصود ہے یعنی جس طرح سب کچھ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے اسی طرح سب کچھ جاننے والا بھی وہی ہے۔یہاں اللہ تعالیٰ کی معلومات کے لا محدود اور غیر متناہی ہونے کا بیان ہے یعنی دنیا کے تمام درختوں کی قلمیں بنا لی جائیں اور بحر محیط سیاہی بن جائے اور پھر ایسے ہی سات سمندر اور سیاہی کے ہوں پھر ان قلموں سے اس سیاہی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی معلومات کو لکھا جائے تو سب قلمیں گھس جائیں گی اور تمام سیاہی ختم ہوجائے گی لیکن اللہ تعالیٰ کی معلومات تحریر میں نہیں آسکیں گے۔ ما خلقکم ۔۔ الخ، یہ تخویف اخروی ہے۔ تم سب کو پہلے پیدا کرنا اور پھر دوبارہ پیدا کرنا اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ ساری مخلوق کی پیدائش یا بعث اور ایک جان کی پیدائش یا بعث اللہ کے لیے یکساں ہے اس لیے وہ ضرور سب کو دوبارہ پیدا کرے گا اور ہرا یک کو اس کے اعمال کی جزاء سزا دے گا۔ ان اللہ سمیع بصیر یہ ما قبل کے لیے علت ہے یعنی جس طرح وہ ہر بات کو سنتا اور ہر چیز کو دیکھتا ہے اسی طرح اس کی قدرت کاملہ ہر کام پر حاوی ہے۔ الم تر ۔۔الخ، یہ توحید پر چھٹی دلیل ہے۔ یعنی یہ حقیقت اس قدر واضح اور روشن ہے کہ اسے ہر کس و ناکس جانتا ہے کہ یہ سارا نظام عالم (نظام شمسی) اللہ کے اختیار و تصرف میں ہے۔ دن کے بعد رات، رات کے بعد دن، دن رات میں کمی بیشی، سورج اور چاند کا طلوع و غروب ہر ایک کا ایک معین اور مقرر پروگرام کے مطابق چلنا یہ سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے جب سارا نظام کائنات اس کے تصرف میں ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر بھی ہے اور کوئی چیز اس کے تصرف و اختیار اور اس کے علم سے باہر نہیں تو لامحالہ اس کے سوا کارساز اور معبود بھی کوئی نہیں وہ سارے جہان کا کارساز ہے اور ہر قسم کی عبادت اور دعاء کا مستحق بھی وہی ہے۔ ذلک۔۔ الخ، یہ دلائل مذکورہ کا تفصیلی ثمرہ ہے۔تمام دلائل اس لیے ذکر کیے گئے ہیں تاکہ تمہیں یقین ہوجائے کہ معبود برحق اور حاجات میں غائبانہ پکارے جانے کے لائق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اللہ کے سوا مشرکین جن معبودوں کو پکارتے ہیں ان کی عبادت اور پکار باطل ہے اور وہ پکار کے لائق نہیں ہیں اللہ تعالیٰ جو اپنی صفات میں برتر اور ذات میں سب سے بڑا ہے وہی عبادت کے لائق ہے۔ الم تر ۔۔الخ، یہ توحید پر ساتویں عقلی دلیل ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور اس کی رحمت شاملہ سے ہماری کشتیاں دریاؤں اور سمندروں میں صحیح سلامت سفر کرتی ہیں اس میں ہر صابر و شاکر بندے کے لیے عبرت ہے اور اس میں اللہ کی وحدانیت کا واضح نشان موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری کشتیوں کو صحیح سلامت کنارے لگا کر ہمیں اپنی وحدانیت اور قدرت کاملہ کا مشاہدہ کرانا چاہتا ہے۔ واذا غشیہم ۔۔الخ، یہ زجر ہے۔ دریاؤں اور سمندروں میں اگر ان کی کشتیوں کو پہاڑوں کے درمیان ایسی بلند وبالا موجیں گھیر لیں تو وہ اپنے تمام خود ساختہ کارسازوں سے مایوس ہو کر خالص اللہ کو پکارنے لگتے ہیں ۔ فلما نجھم۔۔ الخ جب اللہ تعالیٰ ان کو طوفان سے بچا کر کنارے لگا دیتا ہے تو ان میں سے کچھ لوگ تو راہ اعتدال اختیار کرلیتے ہیں اور حق یعنی توحید پر قائم ہوجاتے ہیں ۔ البتہ عہد شکنی اور ناشکری جن کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہو وہ ایسے واضح اور روشن دلائل سے بھی نہیں سمجھتے بلکہ ضد اور عناد کی وجہ سے انکار پر ڈٹے رہتے ہیں۔ یا ایہا الناس۔۔ الخ، یہ تخویف اخروی ہے قیامت کے دن اللہ کے عذاب سے ڈروا۔ اس دن میں باپ بیٹے کے کام نہیں آئے گا اور بیٹا باپ کو کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکے گا اور نہ دنیا کا ساز و سامان اور مال و زر ہی کسی کام آئے گا جس پر آج تم نازاں ہو اور جس پر مغرور ہو کر توحید سے منہ موڑ رہے ہو۔ الغرور دھوکہ دینے والا یعنی شیطان اور شیطان کے دھوکے میں بھی نہ آنا جو تمہیں جھوٹی آرزوئیں اور تمنائیں دلا کر اس کی توحید، اسلام اور آخرت سے غافل کرتا ہے۔ ان اللہ۔۔ الخ، یہ توحید پر آٹھویں عقلی دلیل ہے اور اس سے بھی نفی شرک فی العلم مقصود ہے۔ اس آیت میں پانچ امور کے علم کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہونا ذکر کیا گیا ہے۔(1) قیامت کب آئیگی۔ (2) بارش کب ہوگی ؟ (3) مادہ کے رحم میں کیا ہے۔ (4) آدمی کل کیا کرے گا ؟ او (5) اسے موت کہاں آئے گی ؟ ان پانچوں امور کو مفاتح الغیب یعنی غیب کے خزانے کہا جاتا ہے۔ اور اللہ کے سوا ان کو کوئی نہیں جانتا۔
مختصر ترین خلاصہ
تمہارے لئے اگرلقمان ؒ ایک معتبر و مستند شخصیت ہیں ،تو اللہ نے انکا اسوہ تمہارے لئے بیان کردیا ہے ،جس میں انکی علم و حکمت پر مبنی وعظ و نصحیتیں جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کیں تھیں۔جس میں اول الذکر يٰبُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِ ڼ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ اے میرے بیٹے ! تم (کسی کو)اللہ کا شریک نہ بنانا ۔ یقیناً شرک ظلم عظیم ہے۔اسکے ساتھ مزید دلائل بیان کر دیئے ہیں تو لامحالہ اس کے سوا کارساز اور معبود بھی کوئی نہیں وہ سارے جہان کاعالم الغیب اور کارساز ہے اور ہر قسم کی عبادت اور دعاء کا مستحق بھی وہی ہے۔
Download PDF