|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ  ق

سورۃ  ق مدنی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 50 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے33نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 45آیات ہیں جو3 رکوع پر مشتمل ہیں۔سورۃ کا نام آغاز ہی کے حرف ( ق)سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورة جس کا افتتاح حرف  ق  سے ہوتا ہے۔ سورة ق، الذاریات اور الطور تینوں سورتوں میں ایک ہی مضمون مذکور ہے یعنی ثبوت قیامت، پھر اس مضمون کے تین حصے ہیں۔ اول، حشر و نشر یہ سورة ق میں  کذلک الخروج  (رکوع 2) میں مذکور ہے۔ دوم، جزاء، سوم، سزا۔ سورة الذاریات میں جزاء و سزاء کا وقوع ثابت کیا گیا ہے۔  ان الدین لواقع (رکوع 1) اور سورة الطور میں سزاء کا ذکر ہے۔ ان عذاب ربک لواقع  (رکوع 1)۔

 :سورة ق کا ماقبل سے ربط

 سورة محمد،الفتح اور الحجرات کا ایک حصہ تھا جس میں مسئلہ جہاد کا ذکر تھا۔ اب سورة ق، الذاریات اور الطور ایک الگ حصہ ہے جس میں حشر ونشر اور جزاء و سزاء کا ذکر ہوگا۔ دوسرے حصے کا پہلے حصے کے ساتھ ربط یہ ہے کہ پہلے حصے کا مضمون یہ تھا کہ مشرکین سے جہاد کرو، اس لیے کہ وہ شرک کرتے ہیں اور انہوں نے اللہ کے سوا کئی اور الہٰ بنا رکھے ہیں۔ اب دوسرے حصے میں یہ مذکور ہوگا کہ شرک کرنے کے علاوہ وہ قیامت اور جزاء و سزا کا بھی انکار کرتے ہیں۔ مشرکین توحید کا بھی انکار کرتے تھے اور قیامت کا بھی۔

 ق، والقرآن المجید  یہ ترغیب مع زجر ہے۔ یہ جلال و عظمت والا قرآن شاہد ہے کہ آپ سچے رسول ہیں اور قیامت ضرور آئیگی اس کے بعد شبہے کی تو کوئی گنجائش نہ تھی، لیکن وہ محض ازراہ عناد اعتراض کرتے ہیں کہ رسول بشر ہے اس لیے ہم نہیں مانتے۔  فقال الکافرون الخ  یہ شکوی ہے۔ کافر کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنا بڑی عجیب بات ہے جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے تو پھر دوبارہ زندگی حاصل کرنا تو بعید از فہم بات ہے۔  قد علمنا ما تنقص الخ  جواب شکوی ہے۔ مرنے والوں کو ہم خوب جانتے ہیں ان کے ابدان کا ذرہ ذرہ ہمیں معلوم ہے۔ ہم ایک ایک کو دوبارہ زندہ کرلیں گے۔  بل کذبوا بالحق۔۔الخ  انہوں نے حشر و نشر کا انکار کیا ہے جو کہ حق صریح ہے اور انکار کی ان کے پاس کوئی معقول دلیل نہیں۔  افلم ینظروا الی السماء۔ تا۔ واوحینا بہ بلدۃ میتا  (رکوع 1)۔ یہ حشر نشر پر پہلی اور مفصل عقلی دلیل ہے یہ منکرین قیامت اس میں غور نہیں کرتے کہ ہم نے آسمانوں کو کسی طرح محفوظ و محکم بنایا، زمین کو پیدا کر کے اس پر پہاڑ رکھ دئیے اور اس میں تر و تازہ پھل پیدا کیے، ہم آسمان سے مینہ برسا کر باغات اور غلے پیدا کرتے ہیں اور بارش سے مردہ زمین کو زندگی اور تازگی عطاء فرماتے ہیں۔  کذلک الخروج  یہ سورت کا دعوی ہے۔ یعنی جس طرح ہم مذکورہ بالا کاموں پر قدرت رکھتے ہیں اسی طرح مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہیں اور جس طرح ہم نے مینہ برسا کر مردہ اور بنجر زمین میں جان ڈالدی اور اس سے طرح طرح کی سبزیاں اور درخت اگائے، اسی طرح ہم مردوں کو دوبارہ زندہ کر کے زمین سے نکال لیں گے۔  کذبت قبلھم۔ تا۔ فحق وعید  یہ تخویف دنیوی ہے۔  بل کذبوا بالحق  سے متعلق ہے۔ کفار قریش سے پہلے بہت سی قومیں گذر چکی ہیں مثلا قوم نوح، اصحاب الرس، ثمود، عاد، قوم فرعون، قوم لوط، اصحاب الایکہ اور قوم تبع ان سب نے پیغمبروں کی تکذیب کی، اللہ کی توحید اور حشر و نشر کا انکار کیا تو دنیا ہی میں سب پر اللہ کی گرفت آگئی۔  افعیینا بالخلق الاول۔۔ الخ  یہ زجر ہے۔ کیا ہم پہلی بار انسانوں کو پیدا کر کے تھک گئے ہیں کہ اب دوبارہ انہیں پیدا کرنے کی ہم میں قدر باقی نہیں رہی ؟ نہیں یہ بات نہیں، بلکہ کافروں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندگی میں شک ہے۔  لقد خلقنا الانسان۔ تا۔ وتقول ھل من مزید  (رکوع 3) ، یہ تخویف اخروی ہے۔ ہم انسان کی پدیائش سے لے کر اس کے تمام ظاہری اور باطنی اعمال کو جانتے ہیں، اس کی ہر بات کو قلمبند کرنے کے لیے دائیں بائیں فرشتے متعین ہیں جب اس پر موت کا وقت آئے گا تو اسے کہا جائے گا یہی وہ چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔ قیامت کے دن جب اسے دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو اس سے کہا جائے گا کہ تو آج کے دن سے غافل تھا۔ آج تیری آنکھوں سے پردہ اٹھا دیا گیا ہے اور حقیقت تیرے سامنے عیاں ہے پھر حکم ہوگا کہ ایسے سرکشوں، شریروں اور حق کے دشمنوں کو جنہوں نے اللہ کے سوا اور الٰہ بنائے، سخت ترین عذاب میں ڈال دو  الذی جعل مع اللہ الہا۔۔ آخر  میں مسئلہ توحید کا بیان ہے علی سبیل الترقی۔ جب ان سرکش کفار و مشرکین کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا تو جہنم  ھل من مزید  کا نعرہ لگائیگی  کہ میرا پیٹ ابھی نہیں بھرا مجھے اور سرکش چاہئیں۔ وازلفت الجنۃ۔ تا۔ ول دینا مزید  یہ ایمان والوں کیلئے بشارت اخرویہ ہے۔ جنت کو شرک سے بچنے والوں کے قریب کردیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ یہ جنت جس کا اللہ کی طرف رجوع کرنے والے ہر مومن سے وعدہ کیا گیا تھا اےاللہ سے ڈرنے والو ! امن و سلامتی کے ساتھ ان میں داخل ہوجاؤ اور اس میں ہمیشہ رہو۔ ان کو جنت میں خواہش کی ہر چیز ملے گی اور وہاں ان کی خواہشوں سے بڑھ کر نعمتیں ہوں گی۔  وکم اھلکنا قبلھم۔ تا۔ وھو شہید  یہ بھی تخویف دنیوی ہے۔ ہم نے ان مکہ والوں سے زیادہ طاقتور قوموں کو تباہ و برباد کیا مگر کوئی ان کو ہماری گرفت سے چھڑا نہ سکا۔ اس میں ہر عقلمند اور توجہ سے کام لینے والے کیلئے عبرت و نصیحت ہے۔  ولقد خلقنا السموات۔۔الخ  یہ ثبوت قیامت پر دوسری اور مختصر عقلی دلیل ہے۔ ہم نے اس ساری کائنات کو صرف چھ دنوں میں پیدا کرلیا اور ہم تھکے نہیں تو انسانوں کو دوبارہ پیدا کرلینا کونسا مشکل کام ہے جو ہم سے نہ ہوسکے گا ؟۔  فاصبر علی ما یقولون۔۔الخ یہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیلئے تسلی ہے۔ آپ منکرین کے طعن وتشنیع پر صبر کریں اور اللہ کی عبادت اور اس کی تسبیح وتحمید میں مصروف رہیں اور انتظار کریں کہ قیامت کے دن ان کا کیا حشر ہوگا۔ جب صورت پھونکا جائے گا تو سب اٹھ کھڑے ہونگے۔  انا نحن نحیی۔۔ الخ  موت وحیات ہمارے اختیار میں ہے۔ قیامت کے دن زمین پھٹ جائیگی اور سب لوگ تیزی سے نکلتے آئیں گے ہمارے لیے تو یہ بہت ہی آسان ہے  نحن اعلم بما یقولون۔۔الخ  یہ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیلئے تسلی ہے۔ ہم ان کی باتوں کو خوب جانتے ہیں آپ ان کی پروا نہ کریں اور ایمان والوں کو قرآن سے نصیحت فرماتے رہیں۔

مختصر ترین خلاصہ

 دعوی سورۃ یعنی حشر و نشر پر دو عقلی دلیلیں پہلی مفصل اور دوسری مختصر، ابتداء میں کفار کے لیے زجر اور آخر میں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلیہ اور درمیان میں دعوی توحید کا ذکر علی سبیل الترقی بنسبت سورة سابقہ، منکرین دعوی (کذالک الخرو ج) کیلئے تخویف دنیوی و اخروی اور ماننے والوں کیلئے بشارت اور ذکر واقعات اشارۃً  مذکور ہیں۔