|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ  النجم

سورۃ  النجم مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 53 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے22نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 62آیات ہیں جو3رکوع پر مشتمل ہیں۔اس سورت کے پہلے رکوع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیر معراج کا وہ حصہ بیان کیا گیا ہے جس میں آپ نے سدرۃ المنتہیٰ، مقام دنی فتدلی اور مقام قاب قوسین تک رسائی پائی اور یاد رہے کہ معراج کی رات بھی رسول اللہ ﷺ نے اللہ کو نہیں دیکھا۔ دوسرے رکوع میں بتایا گیا کہ فرشتے اللہ تعالی کے عاجز بندے ہیں، ا س کے حکم کے بغیر اس کے سامنے لب کشائی نہیں کرسکتے، آخری رکوع میں رسالت موسی و ابراہیم علیہم السلام کا بیان ہے اور بتایا گیا کہ انسان کو اپنے عمل ہی کی جزا دی جائے گی، دوسرے کے عمل کی نہیں یعنی ردّالیصال ثواب اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا بیان ہے۔اس سے قبل سورہ طور ہے جس کے پہلے رکوع میں عذاباتِ جہنم اور انعامات جنت بیان کیے گئے ہیں اور نجم کے دوسرے رکوع آیت 31 میں اسی بات کی طرف اجمالاً اشارہ کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ان دونوں سورتوں میں اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پہ روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس لیے ان دونوں کو یک جا رکھا گیا ہے۔

: سورة النجم کا سورۃ الطور سے ربط

سورة طور میں مذکور ہوا کہ جزاء و سزا برحق ہے اور قیامت کے دن کوئی کسی سے عذاب کو دفع نہیں کرسکے گا۔ اب سورة والنجم میں فرمایا کہ اللہ کی بارگاہ میں کوئی شفیع غالب نہیں جو کسی کو عذاب الٰہی سے محفوظ رکھ سکے نہ لات و منات اور عزی اور نہ فرشتے اور نہ یہ پکار کے لائق ہیں۔

 والنجم اذا ھوی۔ تا۔ لقد رای من ایات ربہ الکبری  یہ تمہید ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کا بیان ہے۔ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں، جو کچھ کہتے ہیں اللہ کی طرف سے وحی کی بنا پر کہتے ہیں۔ جبرائیل (علیہ السلام) ایسا قوی وامین فرشتہ ان پر وحی لاتا ہے، اور وہ اس کو دوبارہ اس کی اصل صورت میں بھی دیکھ چکے ہیں اس سے معلوم ہوا آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور آپ پر اللہ کی وحی نازل ہوتی ہے لہٰذا اس کو مانو۔  افرایتم اللات والعزی، ومناۃ الثالثۃ الاخری  یہ سورت کا پہلا دعوی ہے کہ ان معبودان باطلہ کو حاجات میں مت پکارو۔  الکم الذکر۔ تا۔ ضیزی  یہ دوسری دعوی ہے کہ فرشتوں کو شفیع غالب مت سمجھو اور ان کو حاجات میں نہ پکارو۔  انھی الا اسماء۔ تا۔ والاولی  یہ پہلے دعوے کا اعادہ ہے بطریق لف و نشر مرتب۔ مشرکین نے اپنے خود ساختہ معبودوں کو یہ القاب خود دے رکھے ہیں کہ وہ حاجت روا، کارساز اور نافع و ضار ہیں۔ حالانکہ وہ حقیقت میں ان صفات سے عاری ہیں۔ مشرکین کے کہنے سے وہ حاجت روا اور کارساز نہیں بن سکتے۔  وکم من ملک۔ تا۔ من الحق شیئا  (رکوع 2) ۔ یہ دوسرے دعوی کا اعادہ ہے یعنی فرشتے شفیع غالب نہیں ہیں۔ وہ تو اللہ کے حکم کے بغیر زبان بھی نہیں کھول سکتے۔ یہ مشرکین کا محض زعم باطل ہے کہ فرشتے شفیع قاہر ہیں۔  فاعرض۔ تا۔ اعلم بمن اھتدی  یہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی اور مشرکین پر زجر ہے اور  ان ربک ھو اعلم۔۔الخ  جملہ معترضہ برائے بیان وسعت علم الٰہی یعنی اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے۔  وللہ ما فی السموات والارض  جملہ معترضہ برائے بیان توحید۔  لیجزی الذین اساء وا  تخویف اخروی۔  ویجزی الذین احسنوا۔ تا۔ واسع المغفرۃ  بشارت اخرویہ۔  افرایت الذی تولی۔ تا فھو یری  یہ زجر ہے۔ کیا یہ مشرکین غیب سے جانتے ہیں کہ فرشتے ان کی شفاعت کریں گے۔  ام لم ینبا بما۔ تا۔ فغشاھا ما غشی  یہ دلیل نقلی ہے صحف موسیٰ و ابراہیم (علیہم السلام) سے۔  فبای الاء ربک تتماری  یہ زجر ہے۔  ھذا نذیر۔ تا۔ کاشفۃ  یہ تخویف اخروی ہے۔  افمن ھذا۔ تا۔ سامدون  یہ زجر ہے۔  فاسجدوا للہ واعبدوا  یہ سورت کا خلاصہ ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور صرف اسی کو پکارو اور لات و منات اور عزی کو نہ پکارو اور نہ فرشتوں کو شفیع غالب سمجھو۔

:مختصر ترین خلاصہ

یہ سورۃ پہلی سورتوں پر متفرع ہے اور اس کا مقصود بالذات مضمون شفاعت قہریہ کی نفی ہے۔ تمہید مع ترغیب، دعوی اولی، لات منات اور عزی کو مت پکارو۔ دعوی ثانیہ، فرشتوں کو شفیع غالب مت سمجھو۔آخر میں تسلی، زجر اور دلیل نقلی از انبیاء علیہم السلام۔ آخر میں دعوی سورۃ کا اعادہ مذکور ہے۔