|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ المومنون

سورۃ  المومنون مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 23 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے73 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 118آیات ہیں جو6 رکوع پر مشتمل ہیں۔اس سورۃ کا نام بطور علامت  پہلی ہی آیت قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ سے لیا گیا ہے ۔اس میں اللہ نے مومنوں کی صفات کا ذکر کیا ہے۔اور جنت الفردوس کا وعدہ کیا ہے۔اور اس سورۃ میں فرمایا کہ مرنے کے بعد روح جسد عنصری میں دوبارہ قیامت کے دن ڈالی جائے گی۔جبکہ اسکے برعکس یہ عقیدہ بنالیا گیا کہ مرنے کے بعد روح دنیاوی قبر میں لوٹا دی جاتی ہے اور اسی قبر میں سوال و جواب اور عذاب و راحت ملتی ہے ۔ ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَيِّتُوْنَ ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ کے ساتھ دنیاوی قبر میں اعادہ روح کی مکمل نفی فرمادی۔نیز سورۃ میں مسئلہ توحید کو آفاق و انفس کے دلائل سے مزین کیا گیا 

: سورةالمومنون  کا سورۃ الحج سے ربط

سورة حج میں کہا گیا تھا۔  وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِا لْحَجِّ یَاتُوْکَ رِجَالًا۔۔ الخ  (رکوع 4) ۔ یعنی ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ لوگوں میں حج کا اعلان کریں

 تاکہ وہ ہر طرف سے پیادہ اور سوار بیت اللہ کی طرف آئیں اور سورة مومنون کی ابتداء میں فرمایا۔  قَدْ اَفْلَحَ الْمُوْمِنُوْن۔۔ الخ  جو مومنین حج کے لیے آئیں گے ان کے اوصاف بیان کردئیے گئے۔سورة حج کے آغاز میں تخویف اخروی تھی۔  یَا اَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیءٌ عَظِیْم  اور سورة مومنون میں فرمایا اس ہولناک عذاب سے بچنے کے لیے حسب ذیل امور ثلاثہ پر عمل کرو۔ شرک نہ کرو۔ صلوۃ قائم کرو۔ اور ظلم نہ کرو۔ یہ امور ثلاثہ  اَلَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خَاشِعُوْنَ  تا  وَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَلیٰ صَلٰوتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ  میں بیان کیے گئے ہیں۔

 سورة حج میں غیر اللہ کے لیے جانوروں کو حرام کرنے اور غیر اللہ کے نام کی نذریں نیازیں دینے سے منع فرمایا۔ اب سورة مومنون میں اس سے ترقی کر کے فرمایا کہ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ غیر اللہ کی تحریمات اور نذر و نیاز سے باز آجاتے۔ مگر اس کے بجائے وہ شرک کی نئی نئی رسمیں اور راہیں کھول رہے ہیں۔  وَ لَھُمْ اَعْمَالٌ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِکَ ھُمْ لَھَا عٰمِلُوْنَ  (رکوع 4) ۔

 حصہ اول ابتدا سے لے کر  اِذَا ھُمْ فِیْهِ مُبْلِسُوْنَ  (رکوع 4) تک ہے اور دوسرا حصہ  وَ ھُوَ الَّذِيْ اَنْشَاَ لَکُمُ السَّمعَ وَالْاَبْصَارَ  (رکوع 4) سے لے کر سورۃ کے آخر تک ہے۔

:حصہ اول

حصہ اول کی ابتداء میں عذاب آخرت سے بچنے کے لیے امور ثلاثہ کا بیان ہے۔ امر اول۔صلوۃ قائم کرو اور اللہ سے ڈرو اور خشوع و خضوع سے نماز ادا کرو۔  اَلَّذِیْنَ ھُمْ فِی صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ ۔ امر دوم شرک اعتقادی اور شرک فعلی سے بچو۔  وَّالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِلزَّکٰوةِ فٰعِلُوْنَ ۔ امر سوم۔ ہر قسم کے ظلم سے باز رہو۔  وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفظُوْنَ  تا  وَ الَّذِیْنَ ھُمْ لِاَ مَانَاتِھِمْ وَ عَھْدِھِمْ رَاعُوْنَ ۔ اس کے بعد توحید پر تین عقلی دلیلیں مذکور ہیں۔

 دلائل عقلیہ : پہلی عقلی دلیل  وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍ  تا  فَتَبٰرَکَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ ۔ تمام انسانوں کے باپ آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے مٹی کے خلاصہ سے پیدا فرمایا اور پھر نطفہ  کا سلسلہ شروع کیا۔ رحم مادر میں نطفہ کو مختلف منازل سے گذار کر اس سے کامل الخلقت اور حسین و جمیل انسان پیدا کیا۔ وہی سب کا خالق اور برکات دہندہ ہے۔ لہٰذا وہی کارساز اور حاجت روا ہے۔ دوسری عقلی دلیل۔  وَ لَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَکُمْ  تا  تَنْبُتُ بِالدُّھْنِ وَ صِبْغٍ لِّلْاٰکِلِیْنَ ۔ انسانوں کے علاوہ آسمانوں اور زمین کو بھی اللہ ہی نے پیدا کیا وہی آسمان سے بارش برسا کر زمین سے انواع و اقسام کے پھل اور میوے پیدا کرتا ہے اسی نے زیتون جیسا کار آمد درخت پیدا کیا۔ جب سب کچھ دینے والا بھی وہی ہے تو بھی اس کے سوا کسی کو مت پکارو اور اس کی پیدا کی ہوئی چیزوں سے غیر اللہ کی نذر و نیاز مت دو ۔ تیسری عقلی دلیل :  وَ اِنَّ لَکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً  تا  وَ عَلَی الْفُلْکِ تُحْمَلُوْنَ  (رکوع 1) ۔ یہ تمام چوپائے بھی اسی نے پیدا کیے ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کا دودھ پیا اور گوشت کھایا جاتا ہے۔ کچھ باربرداری اور سواری کے کام آتے ہیں۔ اس کے علاوہ کشتیوں کو بھی بار برداری اور سواری کے لیے استعمال کرتے ہو۔ جس مالک و قادر اور محسن و منعم نے یہ انعامات عطا فرمائے وہی سب کا کارساز ہے اور وہی پکار اور نذر و منت کا مستحق ہے۔ اس کے بعد چھ نقلی دلیلیں مذکور ہیں۔

 دلائل نقلیہ : پہلی نقلی دلیل :  وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا  تا  وَ اِنْ کُنَّا لَمُبْتَلِیْنَ  (رکوع 2)۔ یہ نوح (علیہ السلام) سے تفصیلی نقلی دلیل ہے جس سے نفی شرک فی التصرف مقصود ہے۔  یٰقَوْمِ اعْبُدُوْا اللّٰهَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُہٗ ۔ اے میری قوم صرف اللہ کی عبادت کرو اور صرف اسی کو پکارو کیونکہ اس کے سوا تمہارا کوئی کارساز نہیں۔ دوسری نقلی تفصیلی دلیل از ہود (علیہ السلام) برائے نفی شرک فی التصرف۔  فَاَرْسَلْنَا فِیْھِمْ رَسُوْلًا  (رکوع 2) تا  مَا تَسْبِقُ مِنْ اُمَّةٍ اَجَلَھَا وَ مَا یَسْتَاخِرُوْنَ  (رکوع 3) ۔ ہود (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کو یہی دعوت دی۔  اُعْبُدُوْا اللّٰهَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُہٗ ۔ تیسری نقلی دلیل اجمالی :  ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرًا  تا  فَبُعْدًا لِّقَوْمٍ لَّا یُوْمِنُوْنَ ۔ ہود (علیہ السلام) سے لے کر موسیٰ وہارون (علیہما السلام) تک ہم مسلسل دنیا میں پیغمبر بھیجتے رہے جو لوگوں کو پیغام توحید سناتے رہے۔

 چوتھی نقلی دلیل تفصیلی از موسیٰ و ہارون (علیہما السلام)  ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی وَ ھٰرُوْنَ  تا  لَعَلَّھُمْ یَھْتَدُوْنَ موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) فرعون کے پاس پیغام توحید لے کر آئے مگر قوم نے انکار و استکبار کیا۔

 پانچویں نقلی دلیل تفصیلی از عیسیٰ (علیہ السلام)  وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّهٗ اٰیَةً الایة ۔عیسیٰ اور مریم صدیقہ (علیہما السلام) بھی ہماری قدرت اور وحدانیت کا نشان تھے انہوں نے حال شیر خوارگی ہی میں اعلان کردیا تھا۔  اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّکُمْ ۔۔الخ  (مریم رکوع 2) یعنی میرا اور تم سب کا مالک اور کارساز اللہ ہی ہے لہٰذا اسی کو پکارو۔ یہی سیدھی راہ ہے۔

 چھٹی نقلی دلیل اجمالی از تمام رسل علیہم الصلوۃ والسلام برائے نفی شرک فعلی۔  یَا ایُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا۔۔ الخ  (رکوع 4) اللہ تعالیٰ نے انبیاء ومرسلین (علیہم السلام) کو حکم دیا تھا کہ میری حلال اور پاکیزہ چیزوں کو کھاؤ اور ان کو استعمال کرو اور ان میں سے کسی چیز کو حرام نہ کرو اور غیر اللہ کی نذر و نیاز مت کھاؤ۔

  وَ اِنَّ ھٰذِهٖ اُمَّتُکُمْ اُمَّةً وَّاحِدةً ۔۔الخ  یہ تمام مذکورہ دلائل عقلیہ و نقلیہ سے متعلق ہے جو مسئلہ مذکورہ بالا دلائل سے واضح کیا گیا ہے، وہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کا مشترکہ مسئلہ ہے کہ سب کا کارساز صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہی نذر و منت کا مستحق ہے اس کے بعد حصہ اول کے آخر تک زجریں ہیں اور درمیان میں امور ثلاثہ مذکور ہ کا اعادہ ہے۔  اِنَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مِّنْ خَشْیَةِ رَبِّھِمْ مُّشْفِقُوْنَ  میں امر اول کا اعادہ ہے۔ یعنی مومنین اللہ تعالیٰ سے ترساں و لرزاں رہتے ہیں۔  وَ الَّذِیْنَ ھُمْ بِرَبِّھِمْ لَا یُشْرِکُوْنَ  سے امر دوم کا اعادہ کیا گیا ہے۔ یعنی وہ شرک نہیں کرتے اور  وَالَّذِیْنَ یُوْتُوْنَ مَا اٰتَوْ۔۔ الخ  سے امر سوم کا اعادہ کیا گیا یعنی وہ ظلم نہیں کرتے۔

: حصہ دوم

حصہ دوم میں نفی شرک اعتقادی پر چار عقلی دلیلیں پیش کی گئی ہیں ایک تفصیلی اور تین علی سبیل الاعتراف من الخصم۔

 پہلی عقلی دلیل:  وَھُوَ الَّذِيْ اَنْشَا لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ  تا  اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ  (رکوع 5) ۔ اللہ تعالیٰ ہی نے سب کو سننے دیکھنے اور سمجھنے کی قوتیں اور صلاحیتیں عطا کیں اسی نے زمین پر انسانوں کو آباد کیا۔ زندگی اور موت بھی اسی کے قبضہ میں ہے۔ رات دن کی آمدو رفت اور کمی بیشی بھی اسی کے قبضہ میں ہے اس لیے انسان کو سوچ بچار سے کام لینا چاہیے اور اللہ کے ان انعامات کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اسی کو اپنا معبود اور کارساز سمجھنا چاہیے۔

 دوسری عقلی دلیل:  قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْھَا۔۔ الخ  مشرکین اعتراف کرتے ہیں کہ زمین اور زمین کی ساری مخلوقات کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

 تیسری عقلی دلیل :  قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ ۔۔الخ  مشرکین یہ بھی مانتے ہیں کہ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

 چوتھی عقلی دلیل۔  قُلْ مَنْ بِیَدِهٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْءٍ۔۔ الخ  مشرکین اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ سارے جہان کے مکمل اختیارات صرف اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں وہ جسے چاہے بچالے مگر جسے وہ نہ بچانا چاہے اسے کوئی نہیں بچا سکتا۔ یہ تینوں دلیلیں علی سبیل الاعتراف من الخصم ہیں۔ اس لیے ہر دلیل کے بعد مشرکین کو متنبہ کیا گیا کہ جب تم جانتے ہو کہ ہر چیز کا مالک حقیقی اور سارے جہان کا مدبر و مختار اللہ تعالیٰ ہی ہے تو پھر اس سے کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے اور اللہ سے نہیں ڈرتے ہو۔ اور اللہ کے سوا غیروں کو کارساز اور حاجت روا کیوں سمجھتے ہو ؟

 اس کے بعد زجریں تخویفیں اور بشارتیں ہیں اور درمیان میں  اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیْ اَحْسَنُ  (رکوع 6) سے طریق تبلیغ کا ذکر ہے۔ یعنی نرم لہجہ سے تبلیغ فرمائیں اور مسئلہ توحید دلائل کے ساتھ واضح کر کے پیش کریں اور آخر میں سورۃ  کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے بطور ثمرہ دلائل مذکورہ  فَتَعَالَی اللّٰهُ الْمَلِکُ الْحَقُّ ۔۔الخ ۔ اللہ تعالیٰ جو بادشاہ حقیقی ہے وہ ہر قسم کے شرک سے پاک ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت اور پکار کے لائق نہیں اور نہ کوئی نذر و منت کا مستحق ہے۔  وَ مَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰهِ ۔۔الخ  یہ تخویف اخروی ہے۔

مختصر ترین خلاصہ

اس سورۃ کا آغاز صفات مومنین سے کیا گیا پھر اللہ تعالی نے اپنی بعض نعمتوں کا ذکر فرمایا جو انسانوں کو دی گئی پھر نوح علیہ السلام کا ذکر لایا گیا اور اس کے ساتھ ہی تمام انبیاء کی کوشش دینیہ کا اجمالی ذکر ہوا ،اس کے بعد کفار کی طرف سے رسول اللہ کی نبوت پر وارد کیے جانے والے بعض اعتراضات کا جواب دیا گیا پھر اللہ تعالی نے اپنی بعض قدرتی نعمتیں گنوائی اور پوچھا کہ ایسے رب کے سوا کون کرسکتا ہےاور آخر میں قیامت کے حساب کے لئے تیاری کا ذہن دیا گیا ۔