سورۃ القیامہ مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 75 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے23نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 40آیات ہیں جو2 رکوع پر مشتمل ہیں۔ پہلی ہی آیت کے لفظ القِیٰمۃ کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے،اس سورۃ میں منکرین آخرت کو خطاب کر کے ان کے ایک ایک شبہ اور ایک ایک اعتراض کا جواب دیا گیا ہے، بڑے مضبوط دلائل کے ساتھ قیامت اور آخرت کے امکان، وقوع اور وجوب کا ثبوت دیا گیا ہے، اور یہ بھی صاف صاف بتادیا گیا ہے کہ جو لوگ بھی آخرت کا انکار کرتے ہیں ان کے انکار کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کی عقل اسے ناممکن سمجھتی ہے، بلکہ اس کا اصل محرک یہ ہے کہ ان کی خواہشات نفس اسے ماننا نہیں چاہتیں۔ اس کے ساتھ لوگوں کو خبردار کردیا گیا ہے کہ جس وقت کے آنے کا تم انکار کر رہے ہو وہ آ کر رہے گا، تمہارا سب کیا دھرا تمہارے سامنے لا کر رکھ دیا جائے گا، اور حقیقت میں تو اپنا نامہ اعمال دیکھنے سے بھی پہلے تم میں سے ہر شخص کو خود معلوم ہوگا کہ وہ دنیا میں کیا کر کے آیا ہے، کیونکہ کوئی شخص بھی اپنے آپ سے ناواقف نہیں ہوتا، خواہ وہ دنیا کو بہکانے اور اپنے ضمیر کو بہلانے کے لیے اپنی حرکات کے لیے کتنے ہی بہانے اور عذرات تراشتا رہے
: سورة القیامۃ کا ماقبل سے ربط
مشرکین مسئلہ توحید کے علاوہ قیامت اور جزاء وسزا کا بھی انکار کرتے تھے۔ مسئلہ توحید بیان کرنے کے بعد اب سورة القیامہ سے لے کر والطارق کے آخر تک علی سبیل الترقی قیامت کا ثبوت ہوگا اور مسئلہ توحید چونکہ اصل الاصول ہے اس لیے اس کا ذکر بھی ساتھ ساتھ چلتا رہے گا۔ اور ایک میں مسئلہ توحید مذکور ہوگا اور ایک میں مذکور نہیں ہوگا۔
لا اقسم۔ تا۔ بالنفس اللوامۃ ثبوت قیامت کے لیے دو شاہد۔ ایحسب الانسان۔ تا۔ ایان یوم القیامۃ دعوائے سورت و زجر برائے منکرین قیامت۔ انسان کے ڈھانچے کو دوبارہ برابر کرنا ہمارے لیے کوئی مشکل نہیں۔ ہم تو انگلیوں کی پوریں بھی برابر کردیں گے۔ فاذا برق البصر۔ تا۔ ولو القی معاذیرہ تخویف اخروی۔ لا تحرک بہ لسانک۔ تا۔ ثم ان علینا بیانہ جملہ معترضہ۔ جب اللہ تعالیٰ ایسا قادر ہے کہ بوسیدہ ہڈیوں کو اکٹھا کرسکتا ہے سورج اور چاند کو جمع کرسکتا ہے اور انسان کے تمام اگلے پچھلوں عملوں کی خبر دے سکتا ہے وہ قرآن کو بھی آپ کے سینے میں جمع کرسکتا ہے۔ کلا بل تحبون العاجلۃ، وتذرون الاخرۃ زجر۔ جوہ یومئذ ناضرۃ۔ الی ربھا ناظرۃ بشارت اخرویہ۔ وجوہ یومئذ باسرۃ۔بےرونق، بگڑے ہوئے۔تظن ان یفعل بھا فاقرۃ۔ تا۔ الی ربک یومئذ المساق تخویف اخروی۔ فاقرۃ کمر توڑ دینے والی سختی۔ اور کچھ چہرے (یعنی کافروں کے) اس دن حسرت و یاس میں بےرونق اور بگڑے ہوئے ہوں گے اور انہیں یقین ہوگا کہ آج ان کا انجام نہایت ہولناک ہوگا، وہ شدید ترین عذاب میں گرفتار ہوں گے اور کمر توڑ دینے والے مصائب کا نشانہ بنیں گے۔
فلا صدق ولا صلی۔ تا۔ ثم اولی لک فاولی یہ منکرین حشر و نشر اور منکرین جزاء وسزا پر زجر ہے۔ اس نے نہ تو توحید و رسالت اور حشر و نشر کو مانا، ایمان لایا نہ صلوۃ پڑھی، نہ دوسرے اعمال صالحہ کی طرف توجہ دی بلکہ تمام ضروریات دین، توحید، رسالت، قیامت وغیرہ کا انکار کیا اور قرآن و ایمان سے اعراض کیا اور کبر و غرور سے اکڑتا ہو اپنے اہل کی طرف چلا گیا تو اب اس کے لیے ہلاکت و تباہی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے ؟ اولی لک فاولی، ثم تعقیب ذکری کے لیے ہے، تمہارے لیے ہلاکت ہے ہلاکت پھر کہتا ہوں تمہارے لیے ہلاکت ہے ہلاکت، ایحسب الانسان۔ تا آخر زجر متعلق بابتدائے سورت۔ انسان بیکار اور بلا مقصد پیدا نہیں کیا گیا۔ جس قادر مطلق نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا ہے وہ اسے دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔
: مختصر ترین خلاصہ
سورۃ القیامہ کے پہلے رکوع میں بتایا گیا کہ کفار روز قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ وہ کب آئے گی ؟تو فرمایا گیا کہ جب وہ آئے گی تو کفار کے لئے کوئی جائے فرار نہ ہوگی پھر فرمایا گیا کہ اے نبیﷺ!جب آپ پر وحی اترے تو اسے ساتھ پڑھنے کی جلدی نہ فرمائیں بلکہ پہلے توجہ سے سنیں ،(جب کلام اللہ کی تلاوت ہو رہی ہو تو خاموش رہنا اور اسے توجہ سے سننا فرض ہے۔لہذا جب امام قراءت کرے تو خاموش رہ کر توجہ سے سننا چاہیے ،یعنی جہری صلوۃ میں سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے۔)جب وہی مکمل ہوجائے تو پڑھیں ہم آپ کو یاد بھی کرائیں گے اور سمجھائیں گے بھی پھر مزید احوال قیامت کا ذکر ہوا اور دوسرے رکوع میں انسان کو بتایا گیا کہ وہ پانی کے چند قطروں سے پیدا کیا گیا ہے تجھے رب پانی کے قطروں کو انسانی شکل میں اٹھا سکتا ہے وہ ہڈیوں میں روح ڈال کر انہیں دوبارہ زندہ بھی کرسکتا ہے ۔
Download PDF