|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ الروم

سورۃ  الروم مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 30 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے84 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 60آیات ہیں جو6 رکوع پر مشتمل ہیں۔اس سورۃ کانام پہلی ہی آیت کے لفظ غُلِبَتِ الرُّوم سے ماخوذ ہے۔ اس سورۃ کے ابتداء میں رومیوں کے غلبہ کی بشارت دی گئی پھر گزشتہ قوموں کے نافرمانیوں کا حوالہ دے کر اسلام دشمن قوتوں کو متنبہ کیا گیا ہے پھر اللہ تعالی کی نعمتوں کا ایمان افروز تذکرہ ہے پھر درس توحید کو مثال کے حسین پیرایا میں بیان کیا گیا ہے پھر اہمیت صلوۃ بتائی گئی ہے اور انسان کی ناشکری کا حل بتایا گیا ہے اس کے علاوہ دیگر مکئ سورتوں کی طرح سورہ روم میں بھی توحید رسالت،قیامت، جنت، جہنم صفات باری تعالی اور حقانیت قرآن پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

 :سورةالروم کا سورۃ العنکبوت سے ربط

سورة عنکبوت میں عنکبوت (مکڑی)کی مثال سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ اللہ کے سوا کوئی کارساز اور برکات دہندہ نہیں لہٰذا اس کے سوا کوئی پکارے جانے کے لائق نہیں اللہ کے سوا تمہارے جو معبود ہیں ان کی پناہ عنکبوت کے گھر کی طرح کمزور اور بےفائدہ ہے۔ اے ایمان والو !اگر تم اس عقیدہ توحید پر قائم رہو گے تو اللہ تعالیٰ

 تمہیں دشمنوں پر اسی طرح غلبہ عطا فرمائے گا جس طرح وہ رومیوں کو ایرانیوں پر غلبہ دے گا۔

 سورة عنکبوت میں فرمایا۔ احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا امنا وھم لا یفتنون۔ یعنی صرف زبان سے امنا کہہ لینے سے کام نہیں چلے گا بلکہ توحید کی خاطر بڑی بڑی تکلیفیں اور آزمائشیں بھی آئیں گی۔ ان کو صبر و استقلال سے برداشت کرنا ہوگا۔ سورة روم میں فرمایا ویومئذ یفرح المومنون بنصر اللہ ۔۔الخ، یعنی جس دن رومیوں کو ایرانیوں پر فتح ہوگی اسی دن مسلمانوں کو بھی مشرکین مکہ پر غلبہ نصیب ہوگا اور مسلمان نصرت الٰہی سے خوش و خرم ہوں گے۔

اس سورۃ کا مقصود یہی ہے کہ توحید کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مومنوں کو غلبہ دے گا اس لیے اس وعدے کو سورت میں تین بار ذکر کیا گیا اور یہاں دوم درمیان میں۔ وکان حقا علینا نصر المومنین (رکوع 5)۔ سوم آخر میں۔ ان وعد اللہ حق (رکوع 6)۔اہل ایمان کو مشرکین پر فتح و نصرت چونکہ محض توحید پر قائم رہنے سے حاصل ہوگی اس لیے فرمایا فسبحن اللہ۔۔ الخ یعنی تم اللہ تعالیٰ کو ہر قسم کے شریکوں سے پاک سمجھو اور ہر وقت اس کی تسبیح و تقدیس میں لگے رہو اس مضمون کا دوسرے انداز سے دو بار اس کے بعد بھی ذکر کیا گیا اول فاقم وجہک للدین حنیفا (رکوع 4) ۔ دوم فاقم وجہک للدین القیم (رکوع 5) ۔ مسئلہ توحید ایک ایسا اہم اور اٹل مسئلہ ہے جو بیشمار دلائل عقلیہ سے ثابت ہے اس لیے تم سختی اور مضبوطی کے ساتھ دین توحید پر قائم رہو۔ درمیان میں عذاب سے بچنے کے لیے امور ثلاثہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو کفار پر غلبہ چونکہ محض توحید کی وجہ سے حاصل ہوگا اس لیے اس سورت میں مسئلہ توحید کو ایک مثال اور تیری عقلی دلیلوں کے ساتھ مدلل اور واضح کیا گیا۔

 ابتدائے سورۃ میں مسلمانوں کو مشرکین پر فتح و غلبہ کی خوشخبری دی گئی ویو مئذ یفرح المومنون۔ جس دن رومیوں کو فتح ہوگی اسی دن مسلمانوں کو مشرکین مکہ پر غلبہ حاصل ہوگا۔ یہ غلبہ محض اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے ہوگا یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اس میں ہرگز تخلف نہیں ہوگا۔ اس کے بعد یعلمون ظاھرا من الحیوۃ الدنیا سے لے کر بلقاء ربھم لکفرون۔ تک مشرکین پر زجریں ہیں۔ اولم یسیروا فی الارض۔۔ الخ تخویف دنیوی ہے اللہ یبدؤا الخلق ۔۔الخ (رکوع 2) حشر و نشر کے ثبوت پر عقلی دلیل ہے یعنی جو ذات پاک پہلی بار مخلوق کو پیدا کرنے پر قادر ہے وہ دوبارہ بھی مخلوق کو پیدا کرسکتا ہے۔ ویوم تقوم الساعۃ ۔۔الخ تفصیل انجام مومنین و کفار فاما الذین امنوا۔۔ الخ بشارت اخروی۔ واما الذین کفروا ۔۔الخ تخویف اخروی۔

 فسبحن اللہ حین تمسون۔۔ الخ۔ یہ ابتدائے سورۃ  پر مرتب ہے یعنی اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ اگر تم توحید پر قائم رہو گے تو تمہیں کفار پر غلبہ دوں گا لہٰذا اس کو ہر شریک سے پاک سمجھو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ۔ اس کے بعد مسئلہ توحید پر تیرہ عقلی دلیلیں مذکور ہیں۔ آٹھ دلیلوں کے بعد معبود برحق اور معبود باطل کی تمثیل ہے۔ ضرب الکم مثلا من انفسکم ۔۔الخ اور اس کے بعد ان دلیلوں اور تمثیل پر مرتب مسئلہ توحید پر قائم رہنے کا حکم ہے۔ فاقم وجہک۔۔ الخ اس کے بعد مزید دو عقلی دلیلوں کا ذکر کر کے بعد عہد کی وجہ سے اس حکم کا اعادہ کیا گیا ہے۔ فاقم وجہک للدین القیم ۔۔الخ پھر بقیہ دلائل عقلیہ مذکور ہیں۔ نو دلائل عقلیہ کے بعد عذاب الٰہی ہے بچنے کے لیے تین امر مذکور ہیں۔ شرک نہ کرو، احسان کرو اور ظلم نہ کرو۔ فات ذا القربی ۔۔الخ۔

پہلی عقلی دلیل: ومن ایتہ ان خلقکم۔۔ الخ۔ (رکوع 3) ۔ انسانوں کو مٹی سے پیدا کر کے خوبصورت شکل عطا کرنا بھی اس کی قدرت اور وحدانیت کی دلیل ہے۔

دوسری عقلی دلیل: ومن ایتہ ان خلق لکم ۔۔الخ۔انسانوں کی جنس ہی میں سے ان کے آرام و سکون کی خاطر عورتیں پیدا کرنا۔

تیسری عقلی دلیل: ومن ایتہ خلق السموت۔۔ الخ۔  آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنا۔ انسانوں کی زبانوں اور ان کے رنگوں کو مختلف ہونا۔

چوتھی عقلی دلیل: ومن ایتہ منامکم بالیل۔۔الخ۔ رات اس نے تمہارے آرام و سکون کے لیے اور دن تلاش رزق کے لیے بنایا ہے۔

پانچویں عقلی دلیل: ومن ایتہ یریکم البرق۔۔ الخ۔یہ بجلیوں کی چمک اور آسمان سے باران رحمت اتارنا اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔

 چھٹی عقلی دلیل: ومن ایتہ ان تقوم السماء۔۔الخ۔آسمان اور زمین اسی کی قدرت سے قائم ہیں اور دوبارہ بھی وہی زندہ کرے گا۔

ساتویں عقلی دلیل: ولہ من فی السموات ۔۔الخ۔ سارا نظام کائنات اسی کے اختیار و تصرف میں ہے۔

آٹھویں عقلی دلیل: وھو الذی یبدؤا الخلق۔۔ الخ۔ساری کائنات کواسی نے پیدا فرمایا اور قیامت کے دن سب کو دوبارہ بھی وہی پیدا کرے گا۔

ولہ المثل الاعلی۔۔ الخ یہ ان تمام دلائل کا ثمرہ ہے۔ یعنی یہ تمام صفات جو آٹھ دلائل عقلیہ کے طور پر مذکور ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ مختص ہیں۔ زمین و آسمان میں کوئی بھی ان صفات میں اس کا شریک نہیں۔ لہٰذا ان دلائل بالا سے معلوم ہوا کہ جب یہ تمام تصرفات اور یہ تمام صفات اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہیں تو پھر اس کے سوا کارساز اور برکات دہندہ بھی کوئی نہیں نہ اس کے سوا کوئی حاجات و مشکلات میں غائبانہ دعاء و پکار کے لائق ہے۔ اس کے بعد ضرب لکم من انفسکم۔۔ الخ (رکوع 4) سے معبود برحق اور معبود باطل کی مثال ذکر کی گئی ہے مثال کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح تمہارے غلام تمہاری دولت و جائیداد اور تمہارے اختیارات و تصرفات میں تمہارے شریک اور ہمسر نہیں ہوسکتے اسی طرح اللہ کے نیک بندے انبیاء و ملائکہ (علیہم السلام) اور اولیاء کرام جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق بلکہ اس کے غلام ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے تصرفات اور اختیارات میں شریک و ہمسر نہیں ہوسکتے۔ بل اتبع الذین ظلموا۔۔ الخ یعنی مسئلہ توحید میں شک و شبہہ کی گنجائش نہیں، مسئلہ دلائل عقلیہ سے خوب واضح ہوچکا ہے۔ لیکن مشرک لوگ محض نفسانی خواہشوں کے پیچھے چل کر توحید کا انکار کر رہے ہیں۔ فاقم وجہک للدین ۔۔الخ یہ دلائل مذکورہ پر متفرع ہے یعنی جب یہ مسئلہ توحید ایسے دلائل عقلیہ اور براہین قویہ سے ثابت ہے تو آپ اس دین فطرت یعنی توحید پر قائم رہیں جس میں آج تک تبدیلی نہ ہوئی اور نہ آئندہ کبھی ہوگی۔

مُنِيْبِيْنَ اِلَيْهِ وَاتَّقُوْهُ ۔تا۔ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ  تک اللہ کی طرف جھکے رہو اور اللہ سے ڈرو اور امر تنبیہ یہ ہے کہ مشرکوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ہر فرقہ جو کچھ اسکے پاس ہے اس پر خوش ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں فرقہ بنانا مشرکوں کا فعل ہے۔کیونکہ ہر فرقے کا ایک شرعیت ساز مقرر ہوتا ہے جو انہیں شرعیت گھڑ گھڑ کر دیتا ہے جسکی اجازت اللہ نے نہیں دی اسے (الشوری-21) میں بیان کیا گیاہے۔واذا مس الانسان ۔۔الخ یہ مشرکین پر زجر ہے۔ جب ان ظالموں پر کوئی مصیبت آجاتی ہے تو اپنے خود ساختہ معبودوں سے مایوس ہو کر خالصۃً اللہ کو منسوب کردیتے ہیں۔ اولم یروا ان اللہ ۔۔الخ یہ توحید پر نویں عقلی دلیل۔ ہے رزق کی فراخی اور تنگی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اس لیے کارساز اور برکات دہندہ بھی وہی ہے۔ فات ذا القربی حقہ۔۔ الخ۔ دفع عذاب کے لیے امور ثلاثہ کا ذکر یعنی شرک نہ کرو اس کا ذکر دلائل کے ضمن میں گذر چکا۔ احسان کرو اور ظلم نہ کرو یہ دونوں امور ان آیتوں میں مذکور ہیں۔ اللہ الذی خلقلکم۔۔ الخ توحید پر دسویں عقلی دلیل۔ جب خالق و رازق بھی وہی ہے اور موت وحیات بھی اسی کے اختیار میں ہے اور تمہارے مزعومہ معبودوں میں سے کوئی بھی ان صفات میں سے کسی ایک صفت کا مالک بھی نہیں تو پھر ان میں سے کوئی بھی صفات کارسازی میں اللہ کا شریک نہیں۔ ظہر الفساد فی البر الخ (رکوع 5) ۔ تخویف دنیوی ہے یہ خشکی اور تری میں جو شر و فساد اور افراتفری بپا ہے اور لوگ گوناگوں مصائب و آفات میں مبتلا ہیں یہ سب شرک کی وجہ سے ہے۔ قل سیروا فی الارض۔۔ الخ تخویف دنیوی۔ فاقم وجہک للدین القیم۔۔ الخ۔ یہ توحید پر قائم رہنے کے حکم کا اعادہ ہے بوجہ بعد عہد، من قبل ان یاتی ۔۔الخ تخویف اخروی ہے۔ ومن عمل صالحا ۔۔الخ بشارت اخروی۔ ومن ایتہ ان یرسل ۔۔الخ یہ گیارہویں عقلی دلیل ہے۔ یہ ٹھنڈی اور خشک ہوائیں اللہ ہی اپنی رحمت سے بھیجتا ہے ان ہواؤں کے ذریعہ سے ہماری کشتیاں بھی دریاؤں اور ندیوں میں سفر کرتی ہیں تو معلوم ہوا کہ وہی کارساز اور جابت روا ہے اور کوئی نہیں۔ ولقد ارسلنا من قبلک۔۔ الخ تخویف دنیوی برائے مشرکین وبشارت اخروی برائے مومنین۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ دشمنان انبیاء (علیہم السلام) کو دنیا میں ہلاک کیا اور ایمان والوں کی مدد کی۔ وکان حقا علینا نصر المومنین یہ ابتدائے سورۃمیں مذکور وعدہ نصرت یعنی لا یخلف اللہ وعدہ کا اعادہ ہے۔ اللہ الذی یرسل الریح۔۔ الخ یہ بارہویں عقلی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہواؤں کے ذریعہ سے بادلوں کو ادھر سے ادھر لے جاتا ہے اور جہاں چاہتا ہے بارش برساتا ہے اور مردہ زمین کو از سر نو زندہ کر کے زرخیز بنا دیتا ہے۔ جو ان تمام تصرفات کا مالک ہے وہی کارساز اور برکات دہندہ ہے۔ ان ذلک لمحی الموتی۔۔ الخ یہ جمہ معترضہ ہے برائے اثباتِ حشر جب وہ خشک اور مردہ زمین کو زندہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے تو مردوں کو بھی دوبارہ زندہ کرلے گا۔ وھو علی کل شیء قدیر تعلیل برائے ماقبل۔ ولئن ارسلنا ریحا ۔۔الخ زجر برائے مشرکین یہ ایسے معاند ہیں کہ عذاب دیکھ کر بھی نہیں مانیں گے۔ فانک لا تسمع الموتی۔۔الخ  یہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے،کہ جیسے آپ مُردوں کو اوربہروں کواپنی بات نہیں سنا سکتے مشرکین کا بھی یہی حال ہے۔ یعنی اگر ایسے واضح دلائل کے باوجود بھی وہ نہیں مانتے تو آپ ان کو چھوڑ دیں ان کے دلوں پر مہر جباریت لگ چکی ہے اور ان کا حال مردوں کا سا ہے جو کچھ نہیں سن سکتے۔ مہر جباریت کی وجہ سے ان کے دل مردہ اور بےحس ہوچکے ہیں اب ان پر آپ کے وعظ و تبلیغ کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ اللہ الذی خلقکم من ضعف۔۔ الخ (رکوع 6) یہ تیرہویں عقلی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی سب کا خالق ہے اور انسانوں کو عمر کے مختلف مراحل سے گذار کر بڑھاپے تک پہنچانا اسی کے اختیار میں ہے لہٰذا کارساز اور برکات دہندہ بھی وہی ہے۔ ویوم تقوم الساعۃ۔۔ الخ، یہ تخویف اخروی ہے۔ ولقد ضربنا للناس۔۔ الخ یہ شکوی ہے یعنی ہم نے ہر ضروری بات کو اور خصوصا مسئلہ توحید کو قرآن مجید میں ہر انداز سے بیان کر کے سمجھا دیا ہے مگر اس کے باوجود معاندین اسے باطل کہتے ہیں۔ کذلک یطبع اللہ ۔۔الخ کاف بمعنی لام تعلیلیہ ہے یعنی تکذیب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ معاندین کے دلوں پر مہر جباریت لگا دیتا ہے۔ ومن ایتہ ان خلقلکم۔۔ الخ (رکوع 3) ۔ یہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی اور وعدہ نصرت کا دوسری بار اعادہ ہے۔

 مختصر ترین خلاصہ

اگر تم عقیدہ توحید پر قائم رہو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں دشمنوں پر اسی طرح غلبہ عطا فرمائے گا جس طرح وہ رومیوں کو ایرانیوں پر غلبہ دے گا۔مسئلہ توحید پر ہر طرح سے دلائل میسر کر دیئے اور فرمایا فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ پس صبر کرو یقیناً وعدہ اللہ کا سچا ہے۔