|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ الرحمن

سورۃ الرحمن مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 55 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے96نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 78آیات ہیں جو3رکوع پر مشتمل ہیں۔پہلے ہی لفظ کو اس سورة کا نام قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سورة ہے جو لفظ الرحمٰن سے شروع ہوتی ہے۔ سورۃکے پہلے رکوع میں عظمت قرآن کا بیان ہے اور اللہ کی نعمتوں کا ذکر ہے جیسے خلق ارض و سما، وضع میزان، مختلف پھلوں کی تخلیق، تخلیقی جن وانس اور سمندروں میں موجود اللہ کی بعض عظیم نعمتیں۔ دوسرے رکوع میں بھی اللہ تعالی کی بعض عظیم نعمتوں کا ذکر کرکے انسان کو اطاعت کی طرف متوجہ کیا گیا ہے اور آخری رکوع میں خوف الہیٰ تقویٰ کی اہمیت کا ذکر ہے اور جنتی نعمتوں کا بیان ہے۔

: سورة الرحمن کا سورۃ القمر سے ربط

 سورة قمر میں مذکور ہوا کہ ساری کائنات کا خالق اور سب کا کارساز اللہ تعالیٰ ہی ہے اب سورة الرحمن میں اس سے ترقی کر کے فرمایا کہ جب کارساز وہی ہے تو برکت والا نام بھی اسی کا ہے اور اسی کو برکات کا سرچشمہ سمجھو۔ سورت کا یہ دعوی اس کے آخر میں  تبرک اسم ربک ذی الجلال والاکرام  میں مذکور ہے۔

 الرحمن۔ تا۔ والریحان ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، اس کی رحمت وقدرت اور اس کی نعمتوں کا بیان ہے ہر چیز کو اسی نے پیدا کیا اور ہر نعمت اسی نے عطا کی۔ الرحمن، علم القران  یہ پہلی عقلی دلیل ہے۔ اس مہربان نے انسان کو قرآن سکھایا۔  خلق الانسان۔۔ الخ  یہ دوسری عقلی دلیل ہے، اور اس کو مافی الضمیر کے اظہا رکی استعداد عطاء فرمائی۔  والسماء رفعہا۔۔ الخ  یہ تیسری عقلی دلیل ہے۔ تمام علویات و سفلیات اس کے سامنے عاجز و درماندہ ہیں اس نے انسان کو عقل دی کہ ہر چیز کا مقام پہچان کر اس کے ساتھ مناسب سلوک کرے۔ اس نے زمین کو اپنی مخلوق کے لیے بنایا تاکہ اس میں پھل، میوے پھول اور غلے پیدا ہوں۔  خلق الانسان۔ تا۔ من نار  یہ چوتھی عقلی دلیل ہے۔ جس نے انسان کو مٹی سے اور جنات کو آگ سے پیدا کیا، شان اور برکت والا اسی کا نام ہے۔  رب المشرقین و رب المغربین  یہ پانچویں عقلی دلیل ہے۔ مشرق و مغرب یعنی ساری کائنات کا مالک بھی وہی ہے۔  مرج البحرین۔ تا۔ والمرجان  یہ چھٹی عقلی دلیل ہے۔ اس نے میٹھے اور کڑوے پانی کے دو دریا ایک ساتھ بہا دئیے جو آپس میں ساتھ ساتھ ہونے کے باوجود ایک دوسرے میں خلط ملط نہیں ہوتے اور ان سے بڑے اور چھوٹے حجم کے موتی برآمد ہوتے ہیں۔  ولہ الجوار المنشئت فی البحر کالاعلام  یہ ساتویں عقلی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت سے دریاؤں اور سمندروں میں پہاڑوں کی طرح اونچے جہاز امن وسلامتی سے رواں دواں ہیں۔  کل من علیہا۔ تا۔ والاکرام  (رکوع 2) یہ آٹھویں عقلی دلیل ہے۔ یہ ساری مخلوق فناء ہونے والی ہے۔ صرف ایک ذات ذی الجلال ہی باقی رہے گی۔  یسئلہ من فی السماوات۔۔الخ  یہ نویں عقلی دلیل ہے۔ زمین و آسمان کی ساری مخلوق اللہ کی محتاج اور اس کی سائل ہے اور ساری کائنات میں وہ خود ہی اپنی مرضی سے تصرف کرتا رہتا ہے۔ ان تمام دلائل سے ثابت اور واضح ہے کہ جس کی قدرت و رحمت کا یہ حال ہو برکات کا سرچشمہ اسی کی پاک ذات ہوسکتی ہے۔  سنفرغ لکم ایہا الثقلٰن  یہ تخویف کی تمہید ہے۔  یمعشر الجن والانس۔ ۔الخ  یہ تخویف دنیوی کی طرف اشار ہے۔ اگر تم اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے زمین و آسمان کی سرحدوں کو پار کر کے کہیں جانے کی کوشش کرو تو تم ایسا نہیں کرسکتے۔  یرسل علیکما۔ تا۔ حمیم ان  منکرین کے لیے تخویف اخروی ہے۔ قیامت کے دن تمہیں آگ کے شعلوں میں جھونک دیا جائے گا اور تم ان سے محفوظ نہیں رہ سکو گے۔ قیامت کے دن جب آسمان ٹکڑے ٹکرے ہوجائے گا اس وقت اس کا رنگ لال سرخ ہوگا قیامت کے دن جن وانس سے ان کے گناہوں کے بارے میں سوال کی ضرورت ہی نہیں ہوگی، کیونکہ مجرموں کی پہچان ان کے چہروں ہی سے ہوجائیگی اور ان کے اعضاء وجوارح خود بول کر سارے گناہوں کی تفصیل بتا دیں گے۔  ھذہ جہنم ۔۔الخ  یہی وہ جہنم ہے جس سے مشرکین کو ڈرایا جاتا تھا اور وہ اس کو نہیں مانتے تھے۔ اب جہنم کی آگ اور کھولتے پانی کے درمیان ہی چکر کاٹتے رہیں گے۔  ولمن خاف۔ تا۔ وعقری حسان  (رکوع 3) ۔ یہ بشارت اخرویہ ہے۔ جو لوگ قیامت کے دن اللہ کی عدالت میں پیشی سے ڈرتے ہیں اور اس کی نافرمانیوں سے بچتے ہیں ان کے لیے قسم قسم کے باغ ہوں گے جن میں ہر قسم کے میوہ دار درخت ہوں گے اور ان میں مشروبات کے چشمے رواں ہونگے۔ ہر میوہ کوئی انواع و اقسام میں ہوگا۔  متکئین۔۔ الخ  اعلی قسم کے ریشمی بستروں پر آرام کریں گے اور درختوں کے میوے اس قدر قریب ہوں گے کہ بستروں سے بھی ان تک ہاتھ پہنچ سکیں۔  فیہن قصرات الطرف۔۔ الخ  جنت میں ان کے لیے ایسی حوریں ہوں گی جو شرم وحیاء سے آنکھیں جھکائے ہوں گی اور ان سے پہلے کسی جن و انس نے انہیں چھواتک نہیں ہوگا۔ حسن صورت اور صفاء رنگ میں یاقوت و مرجان کی مانند ہوں گی۔ دنیا میں انہوں نے اچھے کام کئے تو اس کی جزاء بھی انہیں اچھی ملی۔  ومن دونہما جنتٰن ۔۔الخ  اس کے علاوہ انہیں اور بھی باغ ملیں گے جن میں چشمے جاری ہونگے۔ حسن و جمال کا مرقع اور پاکدامن حوریں ہوں گی، اعلی قسم کے فروش اور غالیچوں پر آرام کریں گے۔ اللہ نے اپنی نعمتیں یاد دلانے کے بعد متعدد مقامات پر انسان کی عقل کو اپیل کی کہ بتاؤ ان میں سے کونسی  کونسی نعمت کا تم انکار کرو گے کہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں۔ تبارک اسم ربک ذی الجلال والاکرام  آخر میں سورت کے مرکزی دعوے کا ذکر ہے یعنی برکت دینے والا اللہ ہی ہے اور برکت اسی کے نام میں ہے۔

:مختصر ترین خلاصہ

 ابتداء میں دعوی پر نو عقلی دلیلیں ایک خاص انداز سے علی سبیل التفصیل ذکر کی گئی ہیں۔ دوسرے رکوع میں منکرین دعوی کے لیے تخویف دنیوی و اخروی اور آخری رکوع میں ماننے والوں کے لیے بشارت اخرویہ مذکور ہے۔ اس سورت میں اللہ نے اپنی بیشمار نعمتیں یاد دلا کر فرمایا کہ بتاؤ ان میں سے کونسی نعمت کا تم انکار کرو گے کہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی برکات دہندہ نہیں اگر اس دعوے کو نہیں مانو گے تو آخرت میں سخت عذاب ہوگا اور اگر مان لو گے تو آخرت میں جنت کی نعمتیں عطاء ہوں گی۔