|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ الحشر

سورۃ  الحشر مدنی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 59 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے100نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 24آیات ہیں جو3 رکوع پر مشتمل ہیں۔سورۃ کا نام دوسری آیت کے جملے  اَخْرَجَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ مِنْ دِیَارِھِمْ لِاَ وَّلِ الْحَشْرِ سے ماخوذ ہے۔ مراد یہ ہے کہ یہ وہ سورة ہے جس میں لفظ الحشر آیا ہے۔ اس سورۃ میں جنگ بنی نضیر پر تبصرہ ہے پہلی چار آیتوں میں دنیا کو اس انجام سے عبرت دلائی گئی ہے جو ابھی ابھی بنی نضیر نے دیکھا تھا۔ ایک بڑا قبیلہ جس کے افراد کی تعداد اس وقت مسلمانوں کی تعداد سے کچھ کم نہ تھی، جو مال و دولت میں مسلمانوں سے بہت بڑھا ہوا تھا، جس کے پاس جنگی سامان کی بھی کمی نہ تھی، جس کی گڑھیاں بڑی مضبوط تھیں، صرف چند روز کے محاصرے کی تاب بھی نہ لاسکا اور بغیر اس کے کہ کسی ایک آدمی کے قتل کی بھی نوبت آئی ہوتی وہ اپنی صدیوں کی جمائی بستی چھوڑ کر جلا وطنی قبول کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ یہ مسلمانوں کی طاقت کا کرشمہ نہیں تھا بلکہ اس بات کا نتیجہ تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے نبرد آزما ہوئے تھے اور جو لوگ اللہ کی طاقت سے ٹکرانے کی جرات کریں وہ ایسے ہی انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ پھر قانون جنگ کا یہ قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ جنگی ضروریات کے لیے دشمن کے علاقے میں جو تخریبی کارروائی کی جائے وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آتی۔

اوریہ بتایا گیا ہے کہ ان ممالک کی زمینوں اور جائدادوں کا بندوبست کس طرح کیا جائے جو جنگ یا صلح کے نتیجے میں اسلامی حکومت کے زیر نگیں آئیں۔ چونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک مفتوحہ علاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اس لیے یہاں اس کا قانون بیان کردیا گیا۔پھر منافقین کے اس رویہ پر تبصرہ کیا گیا ہے جو انہوں نے جنگ بنی نضیر کے موقع پر اختیار کیا تھا، اور ان اسباب کی نشان دہی کی گئی ہے جو درحقیقت ان کے اس رویہ کی تہہ میں کام کر رہے تھے۔آخری رکوع پورا ایک نصیحت ہے جس کے مخاطب وہ تمام لوگ ہیں جو ایمان کا دعویٰ کر کے مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہوگئے ہوں، مگر ایمان کی اصل روح سے خالی رہیں۔ اس میں ان کو بتایا گیا ہے کہ ایمان کا اصل تقاضا کیا ہے، تقویٰ اور فسق میں حقیقی فرق کیا ہے، جو قرآن کو ماننے کا دعویٰ کر رہے ہیں اس کی اہمیت کیا ہے، اور جس اللہ پر ایمان لانے کا وہ اقرار کرتے ہیں وہ کن صفات کا حامل ہے۔

: سورة الحشر  کا سورۃ المجادلہ سے ربط

سورة مجادہ میں بد ترین قسم کے منافقوں پر زجریں تھیں اب سورة حشر میں علی سبیل التنزیل ان سے کمتر درجہ کے منافقوں پر زجریں ہوں گی۔

 سبح للہ۔۔الخ  دعوی توحید جو اصل مقصود ہے کا اعادہ۔ تاکہ اصل مسئلہ کی طرف دھیان رہے۔  ھوالذی اخرج الذین کفروا۔ تاولیجزی الفاسقین  تخویف دنیوی کا ایک نمونہ۔ یہود بنی النضیر جو اپنے زعم میں نہایت مضبوط قلعوں میں خوداپنےآپ کو اللہ کے عذاب سے محفوظ کیے ہوئے تھے، اہل ایمان کے ایک ہی حملے کی تاب نہ لاسکے اور انہیں اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ جلا وطن ہونا پڑا۔ اس دنیوی سزا کے علاوہ آخرت میں بھی ان کے لیے دردناک سزا تیار ہے۔  وما افاء اللہ علی رسولہ۔ تا۔ انک رؤوف رحیم  اموال بنی نضیر بطور فئ مسلمانوں کو ہاتھ آئے اس لیے ان کی تقسیم کا طریق کار بیان فرمایا۔  الم تر الی الذین نافقوا۔ تا۔ وذلک جزاء الظالمین  (رکوع 2) ۔ یہ منافقین کے لیے زجر و تخویف ہے۔ یہ منافقین بنی قریظہ یہود سے وعدے کرتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھی اور مددگار ہیں۔ ان کے وعدے سراسر جھوٹ ہیں اور وقت آنے پر یہ پیچھے ہٹ جائیں گے اور ان کا ساتھ نہیں دیں گے اور ساتھ ہی مسلمانوں کو خوشخبری دی گئی کہ اب کفر کی طاقت منتشر ہوچکی ہے اور اب کفار متحد ہو کر اور جم کر کہیں بھی مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے اور ان پر مسلمانوں کا رعب طاری رہے گا۔ جب یہود بنی نضیر جو نہایت محکم قلعوں میں محفوظ تھے مسلمانوں کے ایک حملے کی بھی تاب نہ لاسکے، تو یہ بیچارے کیا چیز ہیں۔  یا ایہا الذین امنوا اتقوا اللہ۔ تا۔ لعلہم یتفکرون  (رکوع 3) ۔ یہ پہلے سے کمتر منافقین کے لیے زجر ہے اور مومنوں کو ترغیب الی القتال ہے۔  ھو اللہ الذی لا الہ الا ھو۔ تا۔ وھو العزیز الحکیم  یہ اصل دعوی یعنی  سبح للہ۔۔الخ  سے متعلق ہے۔ ان آیتوں میں توحید کے تینوں مراتب مذکور ہیں۔ پہلی آیت میں تیسرا مرتبہ،یعنی دعائے توحید کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت اور پکار کے لائق نہیں۔  علم الغیب والشہادۃ  یہ دعائے توحید کی علت ہے اس کے سوا کوئی عبادت اور پکار کے لائق نہیں کیونکہ وہی عالم الغیب ہے اور وہی رحمن ورحیم ہے تمام دین و دنیا کی نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں۔ دوسری میں دوسرا مرتبہ  حاصل یہ کہ ساری کائنات میں متصرف و مختار وہی ہے اور خود ہی تخت شاہی پر متمکن ہے اس کی حکومت و سلطنت ہر قسم کے ضعف و نقصان سے پاک ہے اور حکومت میں اور اختیار و تصرف میں کوئی اس کا شریک اور مشیر نہیں اور نہ کوئی نائب و معین۔اور تیسری آیت میں توحید کا پہلا مرتبہ مذکور ہے۔یعنی زمین و آسمان کی ہر چیز مسلسل اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس میں لگی ہوئی ہے اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ وہ جامع کمالات ہے، ہر نقص وعیب سے منزہ اور علم وقدرت میں کامل ہے۔

:مختصر ترین خلاصہ

اس سورت کے پہلے رکوع میں مدینہ میں دور رسالت میں رہنے والے یہود کے ایک قبیلہ بنونضیر کا مدینہ سے اخراج بیان کیا گیا اور جو علاقے اور اموال وہ چھوڑ گئے اس حوالہ سے اموالِ فئے کے احکام بتائے گئے۔ دوسرے رکوع میں مہاجرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ہجرت والی عظیم قربانی کو سراہا گیا، پھر انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مہاجرین کی نصرت و آباد کاری کے لیے قربانیوں کی تعریف و توصیف فرمائی گئی۔ تیسرے رکوع میں منافقین مدینہ کے یہود بنونضیر سے مل کر اسلام کے خلاف ساز باز کرنے سے پردہ اٹھایا گیا اور آخری رکوع میں منافقین مدینہ کے یہود بنونضیر سے مل کر اسلام کے خلاف ساز باز کرنے سے پردہ اٹھایا گیا اور آخری رکوع میں انسان سے کہا گیا کہ وہ اپنی آخرت کی تیاری کرے اور اس سے غافل نہ بنے، پھر عظمتِ قرآن بتائی گئی اور اللہ کے اسماء و صفاتِ بیان فرمائی گئیں۔