سورۃ الحجرمکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 15نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے54نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 99آیات ہیں جو6 رکوع پر مشتمل ہیں ۔اسے سورہ حجر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ہجر قوم صالح علیہ السلام کی بستی کا نام ہے اس سورت میں اس بستی کی تباہی کا ذکر ہے۔اسکی ابتداء میں کفار کو عذاب جہنم سے ڈرایا گیا ہے اور قرآن کی حقانیت و محفوظیت بتانے کے بعد اس کے مقابلہ میں کفار کی ہٹ دھرمی واضح کی گئی ہے پھر آسمانی بروج کی تخلیق حفاظت سماعت اور تسخیر ہوا جیسی قدرت بتائی گئی ہیں پھر آدم علیہ السلام کی تخلیق فرشتوں کو سجدہ آدم کا حکم ابلیس کا انکار اور اس کا جنت سے نکالا جانا بیان کیا گیا پھر چوتھے پانچویں اور چھٹے رکوع میں بالترتیب ابراہیم لوط اور صالح علیہ السلام کا ذکر انبیاء کی تبلیغی کوششیں بیان کی گئی ہیں ۔
سورۃالحجر کا سورۃ ابراہیم سے ربط
سورة ابراہیم میں دلائل اور وقائع امم سابقہ کے ساتھ جو مسئلہ بیان کیا گیا ہے اسے مان لو ورنہ پچھتاؤگے جس طرح اصحاب الحجر نے مسئلہ توحید کی تکذیب کی تو انہیں درد ناک عذاب سے ہلاک کردیا گیا اسی طرح تمہیں بھی ہلاک کردیا جائے گا۔پھر تم پچھتاؤ گے۔
سورةالحجر میں توحید پر دو عقلی دلیلیں پیش کی گئی ہیں ایک مفصل اور دوسری مختصر اور تخویف دنیوی کے پانچ نمونے ذکر کیے گئے ہیں تین گزشتہ قوموں کے اور دو کفار مکہ کےاوررسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے پانچ تسلیاں مذکور ہیں۔ آلرٰ ۔ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الخ تمہید مع ترغیب۔ رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یہ سورۃ کا مقصودی حصہ ہے۔ امم سابقہ کے حالات تم نے سن لیے لہٰذا اب مان لو ورنہ ان کی طرح پچھتاؤ گے جب عذاب آئے گا تو کہیں گے کاش ہم نے مسئلہ توحید مان لیا ہوتااورہم مسلم ہوتے (جیسے ہمارے معاشرے میں خود کودیوبندی ،بریلوی،شیعہ و اہلحدیث سب کہلواتے ہیں صرف مسلم کہلوانا کسی کو پسند نہیں ہے۔) وَ مَا اَھْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ تخویف دنیوی۔ ہر قوم کو مہلت دی گئی اور پھر ضد و انکار کی وجہ سے مقررہ وقت سے پہلے اسے ہلاک نہیں کیا گیا۔ وَقَالُوْا یَا یُّھَا الَّذِیْ ۔۔الخ شکوی ہے مشرکین پیغمبر (علیہ السلام) کو دیوانہ کہتے اور فرشتوں کے نازل ہونے کا مطالبہ کرتے۔ مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰئِکَۃَ۔۔ الخ جواب شکوی ہے فرشتے ہمارے خاص عزم کے تحت نازل ہوتے ہیں۔ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ یہ تخویف دنیوی کے لیے تمہید ہے جس طرح آپ پر ہم نے قرآن اتارا ہے اسی طرح گزشتہ انبیاء علیہم السلا پر بھی کتابیں اور صحیفے نازل کیے مگر ان کی قوموں نے تکذیب کی اور مبتلائے عذاب ہوئے مشرکینِ مکہ بھی اگر قرآن کی تکذیب پر ڈٹے رہے تو ان کا بھی وہی حشر ہوگا۔ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ہم ہی نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے،یہ جملہ معترضہ ہے۔ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا ۔۔الخ تخویف دنیوی ہے استہزاء و تمسخر سے اللہ کے پیغمبروں کی توہین و تخویف کرنیوالوں کے لیے۔ وَ لَوْ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَاباً ۔۔الخ زجر ہے متعلق بشکوی۔ فرشتے اتارنے کے بجائے اگر خود ان کو آسمانوں پر لے جائیں اور وہ سب کچھ دیکھ لیں پھر بھی نہیں مانیں گے۔
پہلی عقلی دلیل مفصل : وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَاءِ بُرُوْجاً تا مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ (رکوع 2) ۔ زمین سے لے کر آسمان تک اور عرش سے لے کر فرش تک سارا کارخانہ عالم اللہ تعالیٰ کے اختیار و تصرف میں ہے اور اس تمام کائنات ارضی و سماوی کا بنانے والا بھی وہی ہے۔ وہی بارش برساتا اور زمین سے اقسام و انواع کے غلے، پھل اور میوے پیدا کرتا ہے اس کے علاوہ اس نے تمہارے لیے بیشمار وسائل رزق پیدا کر رکھے ہیں اور ہر چیز کے بھر پور خزانے اسی کے پاس ہیں۔ اب تم ہی بتاؤ کہ اس کے سوا کوئی اور کارساز ہوسکتا ہے ؟ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِیْنَ۔۔ الخ ہر چیز کو جو ہو گئی یا جو ہونی ہے اس کو جاننے والا تو میں ہوں پھر میرے سوا عالم الغیب اور کون ہوسکتا ہے ؟ وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَان۔۔ الخ (رکوع 3) ۔ یہ بھی دلیل اول سے متعلق ہے۔ جس اللہ نے اپنی ساری کائنات کو انسان کی معاش مہیا کرنے پر لگادیا ہے اسی نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ جو انسان کا خالق وراز ق ہے وہی اسکا کارساز اور حاجت روا بھی ہے۔ وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ۔۔ الخ اس میں ابلیس کی آدم (علیہ السلام) سے دشمنی کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ اولاد آدم ذریت ابلیس کی چالوں اور اس کے مکر و فریب سے خبردار رہے اس کے اگلی سورتوں میں جہاں کہیں یہ قصہ آئے گا اس سے یہی تنبیہ مقصود ہوگی۔ وَ اِنَّ جَھَنَّمَ لَمَوْعِدُھُمْ۔۔ الخ تخویف اخروی ہے۔ اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِی جَنّٰتِ۔۔ الخ بشارت اخروی ہے۔ اس کے بعد تخوف اخروی کے پانچ مثالیں مذکور ہیں۔
پہلی مثال: وَ نَبِّئْھُمْ عَنْ ضَیْفِ اِبْرَاھِیْمَ (رکوع 4) ۔ یہ نمونہ اول کے لیے تمہید ہے۔ قَالَ فَمَا خَطْبُکُمْ ۔۔الخ یہ تخویف اخروی کا پہلا نمونہ ہے۔ قوم لوط (علیہ السلام) نے اللہ کے پیغمبر لوط (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور احکام الہیٰ کی صریح مخالفت کی توا للہ تعالیٰ نے ان کی بستی کو الٹ دیا اور اوپر سے پتھروں کی بارش برسائی اور اس طرح دردناک عذاب سے ان کو ہلاک کردیا۔
دوسری مثال: وَ اِنْ کَانَ اَصٰبُ الْاَیْکَۃِ۔۔ الخ ان سے مراد اہل مدین ہیں۔ شعیب (علیہ السلام) ان کے پاس پیغام توحید لے کر آئے مگر انہوں نے نہ مانا۔ شرک و کفر اور دیگر جرام پر ڈٹے رہے تو اللہ تعالیٰ نے ایک ہولناک آواز سے ان کو ہلاک کردیا۔
تیسری مثال : وَلَقَدْ کَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِیْنَ ۔۔الخ (رکوع 6) ۔ یہ صالح (علیہ السلام) کی قوم تھی انہوں نے ان کو توحید کی دعوت دی اور اللہ کے حکم سے ان کو ان کا مطلوبہ معجزہ بھی دکھایا مگر پھر بھی وہ انکار وعناد سے باز نہ آئے اور دعوت توحید کو قبول نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک چنگھاڑ کی صورت میں عذاب نازل کر کے ان کا خاتمہ کردیا۔ یہ تینوں نمونے اقوام گزشتہ سے پیش کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد توحید کی دوسری عقلی دلیل مذکور ہے۔
دوسری عقلی دلیل مختصر: وَ مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَھُمَا اِلَّا بِالْحق (رکوع 6) ۔ زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی تمام مخلوقات کو ہم نے پیدا ہی اس لیے کیا ہے تاکہ مسئلہ توحید کو واضح کریں کائنات کا ذرہ ذرہ ہماری توحید کا گواہ ہے۔ وَ اِنَّ السَّا عَۃَ لَاٰتِیَۃٌ تخویف اخروی ہے۔ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلِ تسلی اول برائے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰکَ۔۔ الخ تسلی دوم۔ لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ زجر متعلق بہ تسلی دوم۔ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ تسلی سوم۔ وَ قُلْ اِنِّیْ اَنَا النَّذِیْرُ الْمُبِیْنَ مجھ سے معجزات لانے کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ معجزات میرے اختیار میں نہیں ہیں میں تو نذیر ہوں میرا کام تبلیغ وانذار ہے۔ آگے مشرکین مکہ سے تخویف دنیوی کی دو مثالیں ذکر کی گئی ہیں۔
تخویف دنیوی کی چوتھی مثال: کَمَا اَنْزَلْنَا عَلَی الْمُقْتَسِمِیْنَ۔۔ الخ مشرکین مکہ سے کم و بیش بارہ آدمی تھے جو موسم حج میں مکہ مکرمہ میں داخل ہونے والوں کے راستوں پر بیٹھ جاتے اور آنے والوں سے کہتے (عیاذًا باللہ) اس جادوگر سے بچنا کہیں تمہارا ایمان خراب نہ کردے۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کو جنگ بدر میں اور کچھ کو اس سے پہلے آفات و بلیات سے ہلاک کردیا۔فرمایا(اے نبی) ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کردو ان باتوں کا جن کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے اور پرواہ نہ کرو مشرکوں کی۔
تخویف دنیوی کا پانچواں نمونہ: اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِءِیْنَ یہ مشرکین مکہ اور فنکاران قریش سے چند آدمی تھے جو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن سے تمسخر و استہزاء کیا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کرنے کا وعدہ فرمایا۔ اس میں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی بھی ہے۔ وَ لَقَدْ نَعْلَمُ تسلی پنجم برائے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ سورت کے آخرت میں فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ ۔۔الخ سے اصل مقصد بیان کیا گیا کہ آپ دشمنوں کی پروا نہ کریں ان کے لیے ہم خود کافی ہیں بس اللہ کی حمد و ثنا اور اس کی پاکیزگی بیان کرتے رہئے۔ اسی کو سجدہ کیجیے اور اسی کو حاجات میں غائبانہ پکارئیے۔
مختصرترین خلاصہ
سورة الحجر میں دلائل توحید، تخویف دنیوی کی پانچ مثالیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیلئے تسلیاں اورمشرکین کے لیے تنبیہ کہ اب وقت ہے مان لو ورنہ دوسرے کافروں کی طرح پچھتاؤ گے عذاب کے بعد ۔
Download PDF