سورۃ الحج مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 22 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے103 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 78آیات ہیں جو10 رکوع پر مشتمل ہیں۔اس سورۃ کا نام چوتھے رکوع کی دوسری آیت وَاَذِّنْ فِی النَّاس بالْحَجِّ سے ماخوذ ہے۔سورۃ ابتداء میں قیام قیامت کا منظر نامہ پیش کیا گیا ہے کہ جب قیامت قائم ہوگی تو کیسا خوفناک زلزلہ آئے گا۔ پھر قیام قیامت کی حقانیت پہ دلائل قائم کیے گئے ہیں۔ پھر عقیدہ توحید کو مظبوط دلائل سے روشن کیا گیا۔ پھر اہل ایمان کے لیے جنتی انعامات اور کفار کے لیے جہنم کے عذابات کا سلسلۂ شروع ہوا۔ پھر حج کا ذکر شروع ہوا کہ ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں کعبۃ اللہ کی تعمیر ہوئی۔ پھر انہی کی زبان سے پہلی بار حکم حج جاری کیا گیا۔ پھر حج کے مقاصد بتائے گئے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی تعظیم و تکریم سکھائی گئی ہے۔ جیسےکعبۃاللہ، صفا و مروہ، قربانیاں وغیرہ یہ سب اللہ کی نشانیاں ہیں اور حج کے ذریعہ مالی و جانی قربانی دی جاتی ہے جس سے مومن کے دل میں جذبہٌ قربانی بیدار ہوتا ہے اور حج میں تجارت کا پہلو بھی ہے۔حج کے بعد گزشتہ اقوام کی نافرمانیوں اور ان پہ آنے والے عذابات کا ذکر لایا گیا۔ پھر اللہ کی راہ میں ہجرت اور ترکِ وطن کی فضیلت بتائی گئی تاکہ مومنین ہجرت کے لیے ذہنی طور پر تیار رہیں۔ چنانچہ جب حکمِ ہجرت ہوا تو ہر مومن فورًا ہجرت کرے۔ پھر آخر میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی نعمتیں یاد دلائی ہیں اورابراہیم ؑ کی ملت کا پابند کیا گیا اور فرمایا اللہ نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے ۔اور یہ نام رکھ کر چھوڑ نہیں دیا بلکہ فرمایا رسول اس بات پر گواہ ہو جائے اور تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ کہ اللہ نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے،مگر افسوس آج مسلم نام کو پسند نہیں کیا گیا ،کوئی دیوبندی کہلوانے کو بعث فخر سمجھتا ہے تو کوئی بریلوی،اہلحدیث و شیعہ وغیرہ کہلوانے پر فخر محسوس کرتا ہے ۔بھر فرمایا کہ امور مصلحہ صلوۃ و زکوۃ کے پابند ہو جاؤ اور اللہ کو مضبوطی سے تھام لو،وہی تمہارا مولی ہے اور بہترین مددگار ہے۔
سورة الحج کا سورۃ الانبیاء سے ربط
سورة انبیاء میں اس بات کا ذکر تھا کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) اللہ کی طرف سے یہ پیغام لے کر آئے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مافوق الاسباب حاجت روا اور مشکل کشا نہیں اس لیے حاجات و مشکلات میں صرف اسی کو پکارو۔ اور وہاں انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے واقعات بھی ذکر کیے گئے ہیں جن سے ان کا عمل واضح ہوگیا کہ وہ حاجات میں صرف اللہ ہی کو پکارتے تھے اب سورة حج میں یہ بیان کیا جائے گا کہ جس طرح حاجات میں غائبانہ دعاء اور پکار صرف اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے اور ان میں غیر اللہ کو پکارنا شرک ہے اسی طرح نذر و نیاز، منت اور چڑھاوے کا مستحق بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور غیر اللہ کی نذر و منت شرک ہے لہٰذا منت صرف اللہ کی مانو اور نذر و نیاز صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور خوشنودی کے لیے دیا کرو۔ سورة انبیاء میں صرف نفی شرک فی التصرف کا بیان تھا اور اب سورة حج میں نفی شرک فی التصرف کے ساتھ نفی شرک فعلی کا بیان بھی ہوگا۔
مضمون کے اعتبار سے اس سورۃکو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے
حصہ اول نفی شرک فی التصرف : پہلا حصہ ابتدائے سورۃ سے لے کر رکوع 3 کے اختتام نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْم تک ہے اس میں نفی شرک فی التصرف کا مضمون مذکور ہے اس حصہ میں توحید پر دو عقلی دلیلیں پیش کی گئی ہیں شروع میں یَا اَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ۔۔ الخ تخویف اخروی ہے۔ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ ۔۔الخ زجر ہے لیکن اس کے باوجود بعض اس قدر سرکش اور احمق ہیں کہ عذاب سے نہیں ڈرتے اور بلا دلیل محض شیطان کے بہکانے سے توحید میں جھگڑا کرتے ہیں۔ یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ۔۔ الخ (رکوع 1)۔ ثبوت قیامت اور توحید پر عقلی دلیل یعنی جو ناچیز قطرہ آب سے انسان کو پیدا کرسکتا ہے وہ موت کے بعد اسے دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے اور تمہارامعبود حقیقی ہے اس لیے حاجات میں صرف اسی کو پکارو۔ ذَالِکَ بِاَنَّ اللّٰهَ ھُوَ الْحَقُّ ۔۔الخ اور وَ اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ ۔۔الخ چونکہ دلیل مذکور میں ثبوت قیامت بھی ہے اور نفی شرک فی التصرف بھی اس لیے یہ دونوں آیتیں دلیل مذکورہ کے نتیجے ہیں۔ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادَل ۔۔الخ (رکوع 1) ۔ اعادہ زجر اول علی سبیل الترقی۔ جو لوگ غیر اللہ کو پکارتے ہیں ان کے پاس نہ دلیل عقلی ہے نہ دلیل نقلی ہے اور نہ دلیل وحی۔ وہ محض ضد وعناد کی وجہ سے شرک پر ڈٹ گئے ہیں۔ لَهٗ فِیْ الدُّنْیَا خِزْيٌ۔۔ الخ (رکوع 1) تخویف دنیوی و اخروی۔ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰهَ ۔۔الخ (رکوع 2) زجر ثانی۔ یَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ۔۔ الخ متعلق بزجر ثانی۔ اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۔۔الخ (رکوع 2) بشارت اخروی۔ مَنْ کَانَ یَظُنُّ اَنْ لَّنْ یَّنْصُرَهُ اللّٰهُ۔۔ الخ (رکوع 2) زجر ثالث۔ جس کو یہ خیال ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی مدد نہیں کرے گا تو اسے ان لوگوں کا خیال کرنا چاہیے جو صرف اللہ ہی کو پکارتے ہیں کیا اللہ ان کی مدد نہیں کرتا۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا۔۔ الخ (رکوع 2) تخویف اخروی۔ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یَسْجُدُ لَهٗ ۔۔الخ (رکوع 2) یہ توحید پر دوسری عقلی دلیل ہے زمین سے لے کر آسمان تک ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی مطیع و فرماں بردار ہے اور انبیاء و صلحاء بھی اللہ کے فرماں بردار ہیں۔ لہٰذا وہی ساری کائنات کا مالک و مختار اور متصرف و کارساز ہے اس لیے صرف اسی سے استعانت و استغاثہ کرو۔ فَالّذِیْنَ کَفَرُوْا ۔۔الخ (رکوع 2) منکرین توحید کے لیے تخویف اخروی۔ اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلَ الّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔۔ الخ (رکوع 3) مومنین کے لیے بشارت اخروی ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَیَصُدُّوْنَ۔۔ الخ (رکوع 3) ۔ توحید کو نہ ماننے والوں اور دوسروں کو توحید سے روکنے والوں کے لیے تخویف اخروی۔
حصہ دوم نفی شرک فعلی : وَ اِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرَاھِیْمَ ۔۔الخ (ابتداء رکوع 4) سے لے کر رکوع 5 کے اختتام اِنَّ اللّٰهَ لَایُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْر تک ہے اس میں شرک فعلی کی نفی کا بیان ہے جس پر ایک دلیل نقلی ابراہیم (علیہ السلام) سے نقل کی گئی ہے اور چاروں عنوان مذکور ہیں تحریمات اللہ بجا ہیں۔ تحریمات غیر اللہ بےجا ہیں۔ اللہ کی نذر و نیاز جائز ہے اور غیر اللہ کی نذر و نیاز حرام ہے۔ وَ اِذْ بَوَّانَا لِاِبْرَاھِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ ۔۔الخ (رکوع 4) یہ نفی شرک فعلی پر ابراہیم (علیہ السلام) سے دلیل نقلی ہے ،ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا کہ وہ بیت اللہ (خانہ کعبہ) کو ہر قسم کے مشرکانہ اعمال و افعال سے پاک کریں اور لوگوں کو اس میں شرک کرنے سے روکیں۔ وَ یَذْکرُوْا اسْمَ اللّٰهَ الخ – وَلْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ (رکوع 4) ۔ اللہ کے نام کی نذر و نیاز کا حکم ہے اور فَاجْتَنِبُوْ الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَان، میں نذر غیر اللہ کا ذکر ہے۔ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللّٰهِ ۔۔الخ تحریمات اللہ کا ذکر ہے یعنی ایام احرام یا حرم میں جن امور سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے یعنی شکار وغیرہ سے ان سے باز رہنا اور اللہ کے حکم کی تعظیم کو برقرار رکھنا۔ وَ اُحِلَّتْ لَکُمُ الْاَنْعَامُ۔۔ الخ (رکوع 4) ۔ تحریمات غیر اللہ کی نفی ہے یعنی تم نے اپنی طرف سے جو جانورمثلاً بحیرہ سائبہ وغیرہ حرام کر رکھے ہیں وہ حرام نہیں ہیں بلکہ حلال ہیں۔ حرام صرف وہی ہے جسے اللہ نے حرام کیا ہے اور یہ چوپائے جنہیں تم ازخود حرام ٹھہرا دیتے ہو یہ تو اللہ نے حلال کیے ہیں۔ ذٰلِکَ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰهِ۔۔ الخ (رکوع 4) بطور تاکید اللہ کی نیازوں کا بیان وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا۔۔ الخ (رکوع 5) ۔ وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ۔۔ الخ نذور اللہ کا اعادہ تا آخر رکوع۔ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا۔۔ الخ (رکوع 4) سے دونوں مضمونوں کے آخر میں مسلمانوں کو جہاد کی اجازت کا ذکر کیا گیا کہ جن مشرکوں نے تمہیں محض توحید کی خاطر بیت اللہ سے روکا اور خود اس میں شرک کرتے ہیں اور تمہیں اپنا وطن مکہ مکرمہ چھوڑنے پر مجبور کیا ان سے جہاد کرو اور ساتھ ہی نصرت و امداد کا وعدہ بھی فرمادیا۔ وَ لَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسِ۔۔ الخ مشروعیت جہاد کی وجہ یعنی اگر اللہ تعالیٰ ظالم کے مقابلے میں مظلوم کو ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہ دے اور مظلوم کے ہاتھوں ظالم کا اقتدار پامال نہ کرائے تو دنیا میں اور تو اور عبادت کی جگہیں بھی محفوظ نہ رہیں۔ وَ اِنْ یُّکَذِّبُوْکَ فَقَدْ کُذِّبَتْ ۔۔الخ (رکوع 6)۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی اور آپ کو نہ ماننے والوں کے لیے تخویف دنیوی ہے۔ وَ یَسْتَعْجِلُوْنَکَ بِالْعَذَابِ۔۔ الخ زجر مع تخویف دنیوی۔ قُلْ یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنَّمَا اَنَا لَکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ (رکوع 7) ترغیب ایمان۔ فَا لّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ۔۔ الخ بشارت اخروی برائے مومنین۔ وَالَّذِیْنَ سَعَوْا فِیْ اٰیٰتِنَا۔۔ الخ تخویف اخروی برائے منکرین۔ وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ۔۔ الخ (رکوع 7) یہاں منکرین کے نہ ماننے کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ شیطان ان کے دلوں میں کئی قسم کے شبہات ڈال دیتا ہے جن کی وجہ سے وہ حق سے دور ہوجاتے ہیں کما قال تعالیٰ کَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ (انعام)۔ وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا الخ (رکوع 7) تخویف اخروی۔ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔۔ الخ بشارت اخروی۔ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا۔۔ الخ تخویف اخروی۔ وَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ۔۔الخ (رکوع 8) ۔ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کے لیے بشارت اخرویہ و دنیویہ یعنی جن لوگوں کو محض اس لیے گھروں سے بےگھر کیا جائے کہ وہ اللہ کی توحید کو مانتے ہیں ایسے مہاجرین اگر مشرکین سے جہاد کریں تو آخر فتح ان کی ہوگی اور ان کو خواہ وہ بستر پر مریں یا مشرکین سے جہاد میں شہید ہوجائیں آخرت میں ہر قسم کی نعمتیں اور آسائشیں ملیں گی۔ ذٰلِکَ وَمَنْ عَاقَبَ ۔۔الخ یہ ماقبل کی دلیل ہے۔ یعنی جو مظلوم ہو اور ظالم کے ہاتھوں ستایا جائے جب وہ مقابلے کے لیے اٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کی ضرور مدد فرماتا ہے۔ ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰهَ یُوْلِجُ اللَّیْلَ۔۔ الخ یہ ماقبل کی دلیل ہے۔ یعنی جو اللہ سارے نظام عالم کا مختار و متصرف ہے وہ مظلوم مجاہدین کی امداد وتائید پر بھی قادر ہے۔ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ ۔۔الخ (رکوع 8) ۔ اعادہ مضمون اول یعنی نفی شرک فی التصرف مع دلائل یہ دلیل عقلی اول ہے۔ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَکُمْ۔۔ الخ (رکوع 9) دوسری عقلی دلیل۔ وَ ھُوَ الَّذِيْ اَحْیَاکُمْ ۔۔الخ تیری عقلی دلیل۔ لِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا ۔۔الخ (رکوع 9) مضمون ثانی (نفی شرک فعلی) کا اعادہ ہے یعنی ہم نے ہر امت کے لیے یہ دستور مقرر کیا کہ وہ نذر و نیاز صرف اللہ کے نام پر دیا کریں۔ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا فِیْ السَّمَاءِ۔۔الخ یہ دونوں مضمونوں سے متعلق ہے یعنی جب عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں تو اس کے سوائے کسی دوسرے کو کارساز اور متصرف ومختار بھی نہ سمجھو اور اس کے سوا کسی کی نذر و نیاز بھی نہ دو ۔ وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۔۔الخ زجر برائے مشرکین۔ یعنی ایسے واضح دلائل کے باوجود مشرکین شرک سے باز نہیں آتے۔ اَفَاُنَبِّئُکُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذَالِکُمْ ۔۔الخ (رکوع 9) تخویف اخروی برائے مشرکین۔ یَا اَیُّھَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ ۔۔الخ (رکوع 10) ۔ یہ بھی دونوں مضمونوں سے متعلق ہے یہاں ایک مثال سے معبودان باطلہ کا عجز، ان کی بےچارگی اور بےبسی کو واضح کیا گیا ہے یعنی جن کو مشرکین حاجات میں پکارتے ہیں وہ تو بالکل بےبس ہیں اور اپنے نفع نقصان کا اختیار بھی نہیں رکھتے تو اپنے پجاریوں کا کیا سنواریں گے لہٰذا ان کو غائبانہ پکارنا اور ان کے نام کی نیازیں دینا محض بےسود ہے۔ اَللّٰهُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلَائِکَةِ رُسُلًا ۔۔الخ یہ ایک شبہ کا جواب ہے گویا یوں کہا گیا کہ پیغمبر، اولیاء اور فرشتے اللہ کے برگزیدہ اور محبوب بندے ہیں اگر وہ حاجت روا بھی ہوں تو کیا بعید ہے۔ اس کا ازالہ کیا گیا کہ اگرچہ وہ برگزیدہ ہیں لیکن صفات الوہیت کے مالک نہیں ہیں وہ نہ سمیع لکل شیءً (ہر بات کو سننے والے ہیں) اور نہ بصیر بکل شیء (ہر چیز کو دیکھنے والے اور جاننے والے) ہی ہیں لہٰذا وہ عبادت اور پکار کے لائق بھی نہیں ہیں عالم الغیب اور متصرف و مختار اللہ ہے لہٰذا اسی کو پکارو اور اسی کے نام کی نیازیں دو ۔ یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ارْکَعُوْا ۔۔الخ مضامین سورت کا بالاجمال اعادہ ارْکَعُوْا واسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّکُمْ میں بالذات نفی شرک فی التصرف اور بالواسطہ نفی شرک فعلی کی طرف اشارہ ہے۔ وَ جَاھِدُوْا فِیْ اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ اشارہ بسوئے جہاد فی سبیل اللہ۔ مِلَّةَ اَبِیْکُمْ اِبْرَاھِیْمَ ۔۔الخ دلیل نقلی کی طرف اشارہ ہے،اپنے باپ ابراہیم ؑ کی اتباع کرو وہ مسلم تھے تم بھی مسلم کہلاؤ تمہارا دینی نام اللہ نے مسلم رکھا ہے اس قرآن میں بھی اور اس سے پہلے کتب میں بھی۔مگر آج ہمارے معاشرے میں بھی اللہ کا حکم پس پشت ڈال دیا گیا ،اور اپنی پہچان فرقہ ورانہ ناموں سے رکھ لی۔ ساء ما يحکمون
مختصرترین خلاصہ
سورة حج مضمون کے اعتبار سے دو حصوں میں منقسم ہے۔ حصہ اول کی ابتداء میں نفی شرک فی التصرف کا مضمون مذکور ہے اس حصے میں نفی شرک فی التصرف پر دو عقلی دلیلیں ذکر کی گئی ہیں پہلی دلیل ثبوت قیامت اور نفی شرک فی التصرف دونوں پر دلالت کرتی ہے اس حصے میں تین زجریں ہیں زجر اول کا تفصیلی اعادہ بھی کیا گیا ہے۔ دوسرا حصہ میں نفی شرک فعلی کا بیان ہے جس پر ایک دلیل نقلی پیش کی گئی ہے اور چار عنوانوں میں نفی شرک فعلی کا ذکر ہے۔ 1 ۔ تحریمات باری تعالیٰ۔ ان کو قائم رکھو۔ 2 ۔ تحریمات غیر اللہ۔ ان کو ختم کرو۔ 3 ۔ اللہ تعالیٰ کی نذر و منت۔ اس کو پورا کرو۔ 4 ۔ غیر اللہ کی نذر مت دو ۔ دونوں مضمونوں کے بعد اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ۔۔ الخ اجازت جہاد اور اس کے بعد متصل ہی وعدہ فتح ونصرت کا ذکر کیا گیا ،پھر سورۃ کے اختتام پر سورۃ کے تمام مضامین کا بالاجمال اعادہ کیا گیا۔
Download PDF