|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ  الجاثیہ

سورۃ  الجاثیہ مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 45 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے65نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 37آیات ہیں جو4 رکوع پر مشتمل ہیں۔سورۃ کا نام آیت 28 وَتَرٰی کُلَّ اُمَّۃٍ جَاثِیَۃً سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورة جس میں لفظ جاثیہ آیا ہے۔

 :سورة الجاثیہ کا سورۃ الدخان سے ربط

 سورة دخان میں اس شبہہ کا جواب دیا گیا کہ ہم ان معبودان باطلہ کو اس لیے پکارتے ہیں کہ وہ ہماری پکار سن کراللہ کی بارگاہ میں سفارش کریں گے۔ وہ سفارش قبول کرے یا نہ کرے یہ اس کی مرضی تو اس کا جواب دیا گیا کہ ہر بات کو سننے اور جاننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں۔ اب سورة جاثیہ میں ایک اور شبہے کا جواب دیا گیا ہے کہ گویا ہم نے مان لیا کہ ہمارے معبود شفیع غالب بھی نہیں اور ہماری پکاریں بھی نہیں سنتے، لیکن ہم ان کو اس لیے پکارتے ہیں کہ ہمارے آباء و اجداد ان کو پکارا کرتے تھے اور اگر اللہ تعالیٰ ان کو ہماری پکار سنا دے اور وہ اللہ کی بارگاہ میں ہماری سفارش کردیں تو بہتر ورنہ زیادہ سے زیادہ ہمارا پکارنا لغو ہوجائے گا تو اس کا جواب دیا گیا کہ دلائل عقل و نقل سے ثابت ہوچکا ہے کہ سب کچھ سننے اور جاننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں، اس لیے صرف اسی کو پکارو اور غیر اللہ کو مت پکارو نیز ہم نے دین کی راہ واضح اور روشن کردی ہے اس پر چلو اور گمراہ لوگوں کی خواہشاتِ نفسانیہ کا اتباع کرتے ہوئے غیر اللہ کو نہ پکارو۔  ثم جعلنک علی شریعۃ من الامر فاتبعہا۔۔الخ

 حم، تنزیل الکتاب تمہید مع ترغیب، یہ حکمنامہ غالب اور حکمت والے بادشاہ کا ہے اسے مانو۔  ان فی السموات والارض  تا  فبای حدیث بعد اللہ وایتہ یؤمنون ۔ یہ توحید پر پہلی عقلی دلیل ہے علی سبیل الترقی والتدریج۔ صرف زمین و آسمان ہی میں ایمان والوں کے لیے خوشخبری اللہ کی وحدانیت کے کافی دلائل موجود ہیں۔ پھر انسانوں اور دیگر تمام جانوروں کی پیدائش میں رات دن کی آمد و رفت میں آسمان اور زمین سے روزی کا سامان بہم پہنچانے میں اور مختلف قسم کی ہوائیں چلانے میں عقل و بصیرت والوں کے لیے اس کی قدرت و وحدانیت کے بیشمار نشانات موجود ہیں۔ اگر مشرکین ان آیات ونشانات کو دیکھ کر بھی اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہیں لائیں گے تو پھر اس سے واضح تر تو کوئی دلیل نہیں۔  ویل لکل افاک  تا  نبشرہ بعذاب الیم  یہ زجر ہے مع تخویف اخروی۔ اس جھوٹے اور مجرم کے لیے ہلاکت ہے جو اللہ کی آیات بینات سنتا ہے اور غرور و استکبار سے اس طرح ان سے اعراض کرتا ہے گویا اس نے ان کو سنا ہی نہیں، ایسے مجرم کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو ۔  واذا علم من ایاتنا  تا  لہم عذاب من رجز الیم ۔ یہ زجر ثانی ہے مع تخویف اخروی۔ یہ لوگ ایسے معاند ہیں کہ جب کوئی آیت سن پاتے ہیں تو اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے نہایت ذلت آمیز عذاب تیار ہے اللہ کے عذاب سے نہ انہیں دنیا کی دولت بچا سکے گی اور نہ ان کے معبودان باطلہ ہی نجات دلا سکیں گے۔ ایسے لوگوں کے لیے نہایت ہی ذلت آمیز عذاب تیار ہے۔  اللہ الذی سخر لکم  تا  لقوم یتفکرون  (رکوع 2) ۔ یہ توحید پر دوسری عقلی دلیل ہے بطور ترقی۔ نہ صرف زمین میں بہنے والے دریا اور اس مندر اس نے اپنے حکم سے تمہارے کام میں لگا رکھے ہیں، بلکہ اس کے علاوہ زمین و آسمان کی ہر چیز کو اس نے اپنے حکم سے تمہاری خدمت میں لگا رکھا ہے۔ غور وفکر کرنے والوں کے لیے اس میں اللہ کی وحدانیت وقدرت کے کافی دلائل موجود ہیں۔  قل للذین امنوا  تا  ثم الی ربکم ترجعون  یہ تخویف دنیوی ہے۔ جو لوگ اللہ کے عذاب پر ایمان نہیں رکھتے اور بیباک ہو کر اللہ کے حکمنامے کا انکار کرتے ہیں ان پر دنیا ہی میں اللہ کا عذاب آئیگا۔  ولقد اتینا بنی اسرائیل  تا  یختلفون  یہ دلیل نقلی ہے۔ ہم نے تورات میں بھی یہی حکم دیا تھا کہ میرے سوا کسی اور کو کارساز نہ بنانا۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد علماء سوٗنے دیدہ و دانستہ محض ضد کی وجہ سے اس مسئلے میں اختلاف کیا۔  ثم جعلنک علی شریعۃ  تا  واللہ ولی المتقین  یہ سورت کا مقصودی دعوی ہے۔ ہم نے آپ کو واضح اور روشن شریعت عطا کی ہے آپ اس کی پیروی کریں اور ان نادانوں کی خواہشات نفسانیہ کا اتباع نہ کریں جو اندھادھند اپنے مشرک باپ دادا اور گمراہ پیروں اور رہنماؤں کی پیروی میں خود ساختہ معبودوں کو پکارتے ہیں۔ ان کی اطاعت میں کچھ فائدہ نہیں۔  ام حسب الذین اجترحوا السیئات۔۔الخ  یہ زجر ہے ان بدکردار اور منکرین کا خیال ہے کہ ہم ان کو مومنین صالحین کے برا بر درجہ دیں گے۔ یہ خیال محض باطل ہے۔  وخلق اللہ السموات والارض۔۔الخ (رکوع 3) ۔ یہ تیسری عقلی دلیل ہے مع تخویف اخروی۔ زمین و آسمان کو اللہ تعالیٰ نے اظہار حق کے لیے پیدا فرمایا ہے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کے موافق جزاء وسزا ملے گی اور کسی پر زیادتی نہیں ہوگی۔ افرایت من اتخذ الھہ ھواہ۔۔الخ یہ زجر ہے۔ بھلا تم نے اس برے عالم کا حال دیکھا جسے اللہ کے سامنے حاضر ہونے اور اپنے اعمال کی جوابدہی کا یقین نہ ہو۔ ایسے شخص کی زندگی کا مقصد بس یہی رہ جاتا ہے کہ اپنے نفس کی خواہشات کو پورا کرتا جائے۔ کوئی اخلاقی پابندی یا شریعت کی عائد کردہ پابندیوں کو قبول نہ کرے۔ ایسا شخص نہ اللہ تعالیٰ کے اوامر کی تعمیل کرنا گوارا کرسکتا ہے اور نہ نواہی سے اجتناب کرسکتا ہے وہ تو ظلم و عصیان میں شتر بےمہار کی طرح آگے ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔باوجود علم کے  اللہ نے ان کے ضد وعناد کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر جباریت ثبت کردی ہے، اس لیے وہ راہ راست پر نہیں آسکتے۔  وقالوا ماھی الا حیاتنا الدنیا  یہ شکوی اولی ہے۔ یہ لوگ نہ صرف توحید باری تعالیٰ کے منکر ہیں بلکہ وہ قیامت کے بھی منکر ہیں اور نہ اس بات کو مانتے ہیں کہ یہ دنیوی عذاب ان کے گناہوں کی سزا ہے وہ اسے حوادث زمانہ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔  واذا تتلی علیہم ایاتنا  یہ شکوی ثانیہ ہے۔ جب ان کے سامنے بعث و نشور کے دلائل نقل کیے جاتے ہیں۔ تو سوائے اس کے ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا کہ اگر تم سچے ہو کہ مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنا ہے تو ہمارے مرے ہوئے باپ دادا کو زندہ کر کے دکھا دو  قل اللہ یحییکم ثم یمیتکم  یہ دونوں شکو وں کا جواب ہے۔ جس ذات قادر وقیوم نے تمہیں نیست سے ہست کیا اور جس کے اختیار میں موت ہے اس کو دوبارہ زندہ کرنے کی بھی قدرت ہے اور وہ لامحالہ سب کو دوبارہ زندہ کر کے میدان حشر میں جمع کرے گا۔ وللہ ملک السموات والارض (رکوع 4)۔ زمین و آسمان کی حکومت اللہ ہی کے لیے مختص ہے اور ساری کائنات میں وہی متصرف و مختار ہے، اس لیے اس کے سوا کوئی معبود، کارساز اور پکارے جانے کے لائق نہیں۔   ویوم تقوم الساعۃ  تا  ماکنتم تعملون  یہ تخویف اخروی ہے۔ قیامت کے دن باطل پرست بہت بڑے خسارے میں رہیں گے۔ ہر شخص کا اعمالنامہ جس میں اس کے تمام اعمال کا مکمل ریکارڈ ہوگا اسی کے مطابق سب کو سزائیں دی جائیں گی۔  فاما الذین امنوا۔۔الخ  یہ بشارت اخرویہ ہے۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے اور عذاب سے محفوظ ہوں گئے۔ واما الذین کفرو  تا  ولا ھم یستعتبون  یہ تخویف اخروی ہے۔ قیامت کے دن کفار و مشرکین سے کہا جائے گا کہ کیا تمہیں اللہ کی آیتیں نہیں پڑھ کر سنائی جاتی تھیں، لیکن تم غرور و استکبار سے ان کو جھٹلاتے تھے اور جب تم سے کہا جاتا تھا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے، اور قیامت ضرور آئے گی تو تم کہتے تھے ہم قیامت کو کیا جانیں، ہم نہیں مانتے۔ قیامت کے دن ان کے تمام اعمال بد کا نتیجہ ظاہر ہوجائے گا اور ان کا خمیازہ بھگتیں گے۔ وقیل الیوم ننسکم۔۔ الخ۔ قیامت کے دن ان سے یہ بھی کہا جائے گا کہ جس طرح تم نے آخرت کی پروا نہ کرتے ہوئے اس کے لیے کوئی تیاری نہ کی اسی طرح آج تمہارے ساتھ بھی یہی سلوک ہوگا اور تمہاری ٹھکانا جہنم ہے۔ کیونکہ تم نے اللہ کی آیتوں کا مذاق اڑایا اور دنیوی زندگی پر مغرور ہوگئے۔ آج تمہیں اللہ کے عذاب سے بچانیوالا کوئی نہیں، فللہ الحمد رب السموات۔۔الخ  یہ پانچویں دلیل عقلی ہے اور چوتھی دلیل پر متفرع ہے جب زمین و آسمان کی بادشاہی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے تو تمام صفات کارسازی بھی اسی کے ساتھ مختص ہیں کیونکہ وہ زمین و آسمان اور ساری کائنات کا خالق اور مربی ہے، اس ساری کائنات میں بڑائی اور برتری بھی اسی ہی کی صفت ہے، عظمت و کبریا کا مالک وہی ہے۔

مختصر ترین خلاصہ

 اللہ نے واضح اور روشن شریعت عطا کی ہے آپ اس کی پیروی کریں اور ان نادانوں کی خواہشات نفسانیہ کا اتباع نہ کریں جو اندھادھند اپنے مشرک باپ دادا اور گمراہ پیروں اور رہنماؤں کی پیروی میں خود ساختہ معبودوں کو پکارتے ہیں۔ ان کی اطاعت انہیں کچھ فائدہ نہ دے گی۔  تمہید مع ترغیب کے بعد، توحید پر پانچ عقلی دلیلیں اور ایک دلیل نقلی، زجریں، تخویفیں، بشارتیں اور شکوے اور درمیان میں  ثم جعلناک علی شریعۃ ۔۔الخ  سورت کا مقصودی دعویٰ ہے۔