|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ الانفال مدنی دور کی سورۃ ہے، مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 8 آٹھویں نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے88 اٹھاسی نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 75آیات ہیں جو10 رکوع پر مشتمل ہیں۔اس سورۃ  کا نام اسی سورۃ کی پہلی آیت سے لیا گیا ہے۔ اَنْفَا ل، نَفَلُ  کی جمع ہے جس کے معنی زیادہ کے ہیں، یہ مال و اسباب کو کہا جاتا ہے، جو کافروں کے ساتھ جنگ میں ہاتھ لگے، جسے غنیمت بھی کہا جاتا ہے اس کو (نفل) (زیادہ) اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جو پچھلی امتوں پر حرام تھیں۔ یہ گویا امت مسلمہ پر ایک زائد چیز حلال کی گئی ہے اس لیے کہ یہ جہاد کے اجر سے (جو آخرت میں ملے گا) ایک زائد چیز ہے جو بعض دفعہ دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔اس سورۃ میں تقویٰ کی بہت تلقین کی گئی ہے۔ سورۃ کے پہلے حصے میں مال غینمت کے مسئلے کو بیان کیا گیا ہے  اور دوسرے حصے میں جنگ کی قوانین کو تفصیل سےذکر کیا گیا ہے۔

 :سورة الانفال کا ماقبل سے ربط

سورةالمائدہ، الانعام اور الاعراف میں نفی شرک فعلی اور نفی شرک فی التصرف کو پوری تفصیل سے عقلی اور نقلی دلائل کے ساتھ بیان کردیا گیا اور سورة اعراف میں بتایا گیا کہ اس مسئلہ کی تبلیغ  سے تم پر مصائب آئیں گے، تنگ نہ ہونا اور ان پر صبر کرنا اور جہاں مشرکین کا زور ہوگا وہاں وہ مومنوں کو تنگ کریں گے۔ جس طرح پیغمبروں کو تنگ کیا گیا۔ اس لیے سورة انفال اور توبہ میں  وَ قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَاتَکُوْنَ فِتْنَةٌٔ  (رکوع 5) سے جہاد کا حکم نازل فرما دیا کہ اللہ کا دین بلند کرنے اور مشرکوں کا زور توڑنے کے لیے ان سے جہاد کرو۔ اورمسئلہ توحید کو واضح کرنے کی وجہ سے مشرکین تمہارے ساتھ جنگ کریں گے اور فتح کی صورت میں تمہیں انفال (اموال غنیمت) حاصل ہوں گے اس لیے تم انفال کی تقسیم اللہ کے حکم کے مطابق کرنا۔

 :سورة انفال کے دو حصے ہیں

 پہلا حصہ سورۃکی ابتداء سے لے کر رکوع 4 میں نِعْمَ الْمَوْلیٰ وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ تک ہے اور دوسرا حصہ اس کے متصل بعد وَ اعْلَمُوْا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ سے لے کر سورۃ کے آخر تک ہے۔ دونوں حصوں میں دو مضمون بیان کیے گئے ہیں، مضمون اول مال غنیمت کی تقسیم اللہ کے حکم کے مطابق کرو مضمون ثانی قوانین جہاد۔

:حصہ اوّل

قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ والرَّسُوْلِ میں حصہ اول میں پہلا مضمون جو دعوی اولیٰ ہے بالاجمال ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی مال غنیمت اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور اس کی تقسیم کا اختیار بھی اسی کو ہے وہ جس طرح چاہے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی تقسیم کا حکم دے اس کے بعد اس دعوے کی سات علل یا وجوہیں بیان کی گئی ہیں۔

علت اولیٰ: کَمَا اَخرَجَکَ رَبُّکَ۔۔ الخ یہاں کاف تعلیلیہ ہے۔ یعنی جنگ بدر میں آخر تک اللہ کی تائید و حمایت تمہارے ساتھ رہی اور اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو مدینہ سے نکال کر میدان بدر میں لے آیا ۔

 علت ثانیہ: وَ اِذْ يَعِدُکُمُ اللّٰهُ ” تمہارا تو خیال تھا کہ تجارتی قافلہ پر حملہ کریں اور بغیر تکلیف اور نقصان کے بہت سا مال ہاتھ آجائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ تھی کہ وہ تمہاری چھوٹی سی بےسرو سامان جماعت کے ہاتھوں مشرکین کی بھاری اور ہر قسم کے جنگی ہتھیاروں ہتھیاروں سے لیس فوج کو شکست دے کر کفر و شرک کی جڑ کاٹ ڈالے تو یہ سارا مال غنیمت تمہیں محض اللہ کی تائید اور نصرت سے حاصل ہوا ہے لہٰذا اس کی تقسیم بھی اس کی مرضی کے مطابق ہی ہوگی۔

 علت ثالثہ: اِذْ تَسْتَغِیثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ الخ میدان بدر میں تم اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ رہے تھے تو اللہ نے تمہاری دعا قبول فرمائی اور تمہاری تائید کے لیے فرشتوں کی فوج بھیج دی اور اس طرح تمہاری فتح کا سامان کردیا۔

علت رابعہ: اِذْ یُغَشِّیْکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ (رکوع 2)۔ مشرکین نے میدان بدر میں پانی والی جگہ پر پہلے ہی قبضہ کرلیا۔ جہاں اہل ایمان تھے وہاں ریت ہی ریت تھی جس پر چلنا بھی دشوار تھا اور پھر پانی نہ ہونے کی وجہ سے وہ شدید پیاس کی تکلیف بھی اٹھا رہے تھے۔ مشرکین کی کثرت اور ان کے ساز و سامان سے بھی قدرے ہراساں تھے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر نیند طاری کردی جب کچھ دیر بعد ان کی آنکھیں کھلیں تو ان کا سارا خوف وہراس ختم ہوگیا اور ساتھ ہی اللہ نے بارش برسا دی جس سے مسلمانوں کو پانی میسر آگیا اور ریت بھی بیٹھ گئی اور جس جگہ مشرکین قابض تھے وہاں کیچڑ ہوگیا۔

 علت خامسہ: اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَةِ۔۔ الخ اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ مومنوں سے کہہ دیں کہ میں ان کے ساتھ ہوں اور میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا جس سے وہ ہمت ہار کر شکست کھا جائیں گے۔ فَلَمْ تَقْتُلُوْھُمْ وَلٰکِنَّ اللّٰهَ قَتَلَھُمْ۔۔ الخ یہ مذکورہ پانچوں علتوں پر متفرع ہے۔ یعنی جب تمہیں معلوم ہوگیا کہ جنگ بدر میں اول سے آخر تک اللہ کی تائید و حمایت تمہارے شامل حال رہی اور تم نے اللہ کے حکم سے مشرکین کو شکست دی، ان کے ستر جوان تم نے قتل کیے اور ستر کو قید کرلیا تو اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ان مشرکین کو تم نے قتل نہیں کیا بلکہ ان کو اللہ نے قتل کیا جس کی تائید و نصرت سے تم کو فتح حاصل ہوئی۔ وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰهَ رَمیٰ کا خطاب رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے۔ یعنی آپ نے شدت جنگ کے موقع پر مٹھی بھر کنکریاں مشرکین کے لشکر پر پھینکیں تو ہم ہی نے اپنی قدرت کاملہ سے کنکریوں کے ریزے ہر کافر کی آنکھوں میں پہنچائے جس کی وجہ سے وہ آنکھیں ملنے لگے اور تم نے ان پر دھاوا بول دیا اور ان کے پاؤں اکھڑ گئے۔

 علت سادسہ: وَ اِذْ یَمْکرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ۔۔الخ (رکوع 4)۔ مشرکین آپ کے بارے میں مختلف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کر ڈالیں، قتل کریں یا جلا وطن کردیں لیکن اللہ نے ان کے تمام منصوبے خاک میں ملا دئیے اور آپ کو بچا لیا۔

علت سابعہ: وَ اِذْ قَالُوْا اللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقَّ۔۔ الخ جب مشرکین جنگ کیلئے آئے تھے اس وقت انہوں نے اللہ سے دعا کی تھی کہ اے اللہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دین سچا ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا کر یا کوئی اور عذاب دے کر ہم کو تباہ کردے اور آخری فیصلہ فرما دے چنانچہ ہم نے جنگ بدر میں حق و باطل کا فیصلہ کردیا۔ حق غالب ہوا اور باطل مغلوب و مقہور۔

 مضمون ثانی: (قوانین جنگ)

 پہلے حصے میں مسلمانوں کے لیے پانچ قوانین جنگ ذکر کئے گئے ہیں۔

قانون جنگ اول: یَا اَيُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا لَقِیْتُمْ۔۔ الخ (رکوع 2) یعنی جب میدان جنگ میں کافروں سے مڈ بھیڑ ہوجائے تو ڈٹ کر اور ثابت قدمی سے ان کا مقابلہ کرو اور پیٹھ پھیر کر مت بھاگو۔

 قانون جنگ دوم: یَا اَيُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوْ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ الخ (رکوع 3) اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں کوتاہی نہ کرو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے تمہارے ایمانوں میں پختگی اور اعمال میں راستی پیدا ہوگی اور تمہارا عزم و استقلال ناقابل تسخیر (ناقابل قابو) ہوجائے گا۔

قانون جنگ سوم: یَا اَيُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَخُوْنُوْا اللّٰهَ والرَّسُوْلَ ۔۔الخ (رکوع 3) ۔ اللہ اور اس کے رسول کی چوری نہ کرو مراد یہ ہے کہ اپنے مال و اولاد کی خاطر دشمن سے خفیہ ساز باز نہ کرو یا یہ کہ مال غنیمت میں سے کچھ مت چھپاؤ۔

قانون جنگ چہارم: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ۔۔الخ (رکوع3) اللہ اور اسکے رسول کے احکام کی تعمیل میں پس و پیش نہ کرو،اطاعت کو لازم پکڑو یہی فتح و کامیابی کی کنجی ہے۔

 قانون جنگ پنجم: یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ تَتَّقُوْا اللّٰه یَجْعَلْ لَکُمْ فُرْقَانًا۔۔ الخ (رکوع 4) یعنی اگر تم اللہ سے ڈرو گے اور ظاہر و باطن میں تقویٰ اختیار کرو گے ۔تو اللہ تمہیں حق وباطل میں فرق کی کسوٹی دے گا اور اللہ تعالیٰ تمہارے اور تمہارے دشمنوں کے درمیان فیصلہ فرما دے گا تمہیں عزت و سر بلندی عطا فرمائے گا اور تمہارے دشمنوں کو ذلیل و خوار کرے گا۔ حصہ اول میں علل اور قوانین جنگ کے بیان کے دوران میں تخویفیں، بشارتیں، زجریں اور شکوے مذکور ہیں۔

 :حصہ دوم

 حصہ دوم دسویں پارے کی ابتداء وَاعْلَمُوْا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ ۔۔الخ سے لے کر سورت کے آخر تک ہے۔ اس میں بھی وہی دونوں مضمون لف و نشر مرتب کے طور پر

مذکور ہیں جو پہلے حصے میں مذکور ہوئے یعنی مال غنیمت کی تقسیم اللہ کے حکم کے مطابق کرو اور اپنی رائے کو بیچ میں نہ لاؤ اور قوانین جنگ۔ اس میں مذکورہ علل اور قوانین کی تعداد حصہ اول کی تعداد کی برعکس ہے یعنی علل پانچ اور قوانین جنگ سات۔

 مضمون اوّل: (تقسیم مال غنیمت مع علل خمسہ)

وَ اعْلَمُوْا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ۔۔ الخ اس میں قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ ۔۔الخ کے مضمون کا اعادہ اور اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ آگے اس کی علل مذکور ہیں۔

علت اولیٰ: اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَة الدُّنْیَا۔۔ الخ (رکوع 5) یعنی تم میدان جنگ کے اس کنارے پر تھے جو مدینہ سے قریب تھا اور دشمن کا تجارتی قافلہ دوسری جانب تھا دونوں کے درمیان قریش کی فوج حائل تھی۔ اتفاقاً مڈ بھیڑ ہوگئی اگر لڑائی کا وقت مقرر ہوتا تو ممکن تھا کہ وعدہ کے وقت پہنچنے میں اختلاف ہوجاتا مگر اللہ کو منظور یہ تھا کہ اس میدان میں حق و باطل کا فیصلہ ہوجائے۔

 علت ثانیہ: اِذْ یُرِیْکَھُمُ اللّٰهُ فِیْ مَنَامِکَ قَلِیْلًا ۔۔الخ (رکوع 5) ۔ دشمن کی فوج اگرچہ تعداد میں آپ کی فوج سے کہیں زیادہ تھی مگر ہم نے خواب میں آپ کو ان کی تعداد بہت کم دکھائی تاکہ دشمن کی کثرت کا رعب آپ کے دل میں نہ رہے۔

 علت ثالثہ: وَ اِذْ یُرِیْکَھُمْ اِذِ الْتَقَیْتُمْ فِیْ اعْیُنِکُمْ قَلِیلًا۔۔ الخ (رکوع 5) ۔ جب دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا تو ہم نے ایسا کیا کہ دشمن کی فوج مسلمانوں کو بہت کم نظر آنے لگی اور مسلمانوں کی فوج کافروں کی نظروں میں کم دکھائی دینے لگی جس کا فیصلہ فرما دیا۔

 علت رابعہ: وَ اِذْ زَّيَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَا لَھُمْ۔۔ الخ (رکوع 6)۔ جنگ بدر کی اہمیت کو ابلیس نے بھی محسوس کرلیا اور وہ عرب کے ایک نہایت دانشمند اور تجربہ کار مشرک (سراقہ بن مالک)کی شکل میں آپہنچا اور مشرکین کو تسلی دی کہ فکر مت کرو۔ پوری جرات اور بہادری سے لڑو آج تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا میں بھی صرف تمہاری امداد اور اعانت کے لیے آیا ہوں۔ ایسے وقت میں جبکہ اس نے دشمن کی فوج میں جوش کی ایک نئی لہر دوڑا دی ہم نے فرشتوں کا لشکر اتار دیا جسے دیکھ کر شیطان  میدان چھوڑ کر بھاگ گیا اور دشمن کی ہمتیں پست ہوگئیں۔

 علت خامسہ: اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ (رکوع 6) یہ بھی یاد کرو جب تم جہاد کے لیے نکلے تھے میدان جنگ میں تو شیطان نے شیخ مشرکین کی شکل میں مشرکین کی ہمت افزائی کی اور پیچھے منافقین چہ میگوئیاں کر رہے تھے کہ ان مسلمانوں کو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ دیکھو یہ مٹھی بھر آدمی جان بوجھ کر اتنے بڑے لشکر کے مقابلہ میں موت کو دعوت دینے جا رہے ہیں۔ لیکن اللہ نے مسلمانوں کے دلوں کو ایمان، ثبات اور توکل علی اللہ کی دولت سے معمور کردیا اور منافقین کی باتوں کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔

مضمون ثانی:(قوانین جنگ)

 اس حصے میں سات قوانین جنگ مذکور ہیں۔ دو تمام مومنین کے لیے اور پانچ خاص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیےہیں۔

 :قانون جنگ اول برائے مومنین

یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا۔۔ الخ (رکوع 6)۔ یعنی جب میدان جنگ میں دشمن سے مقابلہ ہوجائے تو ثابت قدم رہو اور اللہ سے مدد مانگو۔ آپس میں اختلاف پیدا نہ کرو ورنہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی،اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور آپس میں متحد رہو تاکہ تمہاری طاقت میں کمزوری نہ آجائے۔

:قانون جنگ دوم برائے نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

فَاِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِی الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِھِمْ۔۔ الخ (رکوع 7)۔ جن مشرکین نے آپ سے عہد کیا کہ وہ آپ کے خلاف دشمن کی مدد نہیں کریں گے اگر وہ عہد شکنی کر ڈالیں اور آپ ان کو دشمن کی فوج میں لڑتے ہوئے دیکھ لیں تو ان کو ایسی سخت سزا دیں کہ ان کے پچھلے بھی اس سے عبرت حاصل کریں۔

:قانون جنگ سوم برائے مومنین

وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّاسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ ۔۔الخ (رکوع 7) دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری تیاری کرو اور جس قسم کا حالات زمانہ کے مطابق جنگی سامان تم تیار کرسکتے ہو تیار رکھو اللہ کی راہ میں جو کچھ خرچ کرو گے ضائع نہیں جائے گا۔

 :قانون چہارم برائے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا (رکوع 8) ۔ اگر مشرکین مسلمانوں کی قوت و شوکت اور ان کی مجاہدانہ سرفروشی کو دیکھ کر مرعوب ہوجائیں اور صلح کی پیش کش کردیں تو آپ بھی صلح کا ہاتھ بڑھا دیں کیونکہ مقصود تو اعلاء کلمۃ اللہ ہے۔ نہ کہ خونریزی اور قتل و غارت۔

 قانون پنجم برائے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یَا اَيُّھَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤمِنِیْنَ ۔۔ یَا اَيُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ الخ (رکوع 8، 9)  اے پیغمبر آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو اللہ کافی ہے آپ اس پر بھروسہ کریں اور مومنوں کو جہاد کی ترغیب دیں۔ اور خاص کُلیہ تعداد بیان کردی اس کُلیہ تعداد کے مطابق اہل ایمان ہوں تو قتال کریں میں تمہاری قلت کے باوجود تم کو مشرکین پر غلبہ عطا کروں گا۔

:(قانون ششم برائے نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

مَا کَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّکُوْنَ لَهٗ اَسْرٰي۔۔ الخ (رکوع 9) چونکہ پہلے فدیہ لینے کی ممانعت کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لیے

آپ نے فدیہ لے کر جنگ بدر کے قیدی رہا کردئیے تھے اس پر فرمایا کہ پیغمبر کے لیے یہ مناسب نہیں کہ اس کے ہاتھ میں ایسے دشمن قیدی ہوں اور وہ ان کو قتل کرنے کے بجائے ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دے۔

 :قانون ہفتم برائے نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یَا اَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْ اَیْدِیْکُمْ مِّنَ الْاَسْرٰي (رکوع 10) فدیہ وصول کرتے وقت جن قیدیوں نے اسلام کا اظہار کیا ہے آپ ان سے کہہ دیں کہ اگر واقعی تم نے دل سے اسلام قبول کرلیا ہے تو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے اللہ تعالیٰ تم کو اس سے بہتر مال عطا کرے گا اور تمہارے سابقہ گناہ بھی معاف کردیگا۔ اس کے بعد اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھَاجَرُوْا وَ جَاھَدُوْا سے جہاد اور ہجرت کی ترغیب دی گئی اور آگے چل کر وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھَاجَرُوْا وَجٰهدُوْا۔۔ الخ سے مجاہدین اور مہاجرین کو بشارت اخروی سنائی گئی۔ آخری رکوع میں مومنین کی دو قسمیں بیان کی گئیں اول مومنین مہاجرین، دوم مومنین غیر مہاجرین اور مہاجرین کی بھی دو قسمیں ہوئیں۔

: مختصر ترین خلاصہ

سورة انفال مضمون کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلا حصے میں بیان کیا کہ مال غنیمت کی تقسیم کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے،اسےمع علل  بیان کیا اور مضمون ثانی میں قوانین جہاد مرتب فرمائے۔ آخر میں فرمایاجو لوگ کافر ہیں وہ ایک دوسرے کے دوست اور مددگار ہیں اگر تم یوں نہ کرو گے تو فتنہ و فساد پھیل جائے گا، اور جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اور مدد کی یہی لوگ پکے مومن ہیں۔ ان کے لیے مغفرت اور باعزت روزی ہے۔