|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ  یوسف مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 12بارہویں نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے53 تریپن نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 111آیات ہیں جو12 رکوع پر مشتمل ہیں ۔ اس سورۃ میں یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور علامتاً اس سورۃ کا نام بھی یوسف رکھ دیا گیا۔ اس کے مرکزی مضامین تقریباً وہی ہیں جو مکی سورتوں کا خاصہ ہیں، یعنی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دعوت دینا اور نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہمت افزائی کرنا اور انھیں تسلی دینا کہ انبیائے کرام ہمیشہ ہی آزمائشوں سے گزر کر اپنی دعوت میں کامیابی سے ہمکنار ہوتے رہے ہیں اور یہ کہ جس طرح یوسف (علیہ السلام) قید و بند اور عزت و ناموس میں شدید آزمائشوں سے گزرنے کے بعد غریب الدیار ہونے کے باوجود بالآخر مصر کی حکومت کے مالک بن گئے اور ان کے بھائیوں کو انھی کی جناب میں پناہ لینا پڑی، اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی بالآخر کفار قریش پر غلبہ دے گا اور انھیں آپ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے اور تاریخ شاہد ہے کہ ایسا ہی ہوا۔

:سورة یوسف  کا سورۃ ھود سے ربط

سورة ہود میں جس مسئلہ کا ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت اور پکار کے لائق نہیں یہ مسئلہ اس قدر اہم اور ضروری ہے کہ یوسف (علیہ السلام) جیل میں بھی اس کی تبلیغ و اشاعت کو نہ بھولے۔ قید خانے میں جب دو قیدیوں نے تعبیر لینے کے لیے ان کے سامنے اپنے خواب بیان کیے تو انہوں نے تعبیر دینے سے پہلے ان کو مسئلہ توحید اچھی طرح سمجھایا اور انہیں بتایا کہ غیر اللہ کی عبادت اور پکار پر تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں۔ شرک عقل و نقل کے خلاف ہے اسی لیے اللہ نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کو مت پکارو۔

سورة ہود کا دوسرا دعویٰ تھا کہ اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب اور متصرف و مختار نہیں۔ اب سورة یوسف میں اس دعوی پر ایک بہت مفصل نقلی دلیل ذکر کی گئی۔جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب اور متصرف و مختار نہیں تو لا محالہ یہ ماننا پڑے گا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت اور پکار کے لائق بھی نہیں۔

 سورة ہود میں متعدد انبیاء (علیہم السلام) کی زبان سے یہ دعوی ذکر کیا گیا کہ اللہ کے سوا کوئی پیغمبر فرشتہ یا ولی عبادت اور پکار کے لائق نہیں اور سورة یوسف میں ایک جلیل الشان پیغمبر جن کا باپ پیغمبر، دادا پیغمبر اور بیٹا پیغمبر (علیہم السلام) یعنی یعقوب (علیہ السلام) کا مفصل واقعہ ذکر کیا گیا جس کی ایک ایک کڑی سے یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ وہ نہ غیب جانتے تھے نہ متصرف و مختار تھے اس لیے عبادت اور پکار کے لائق بھی نہ تھے، وہ اپنے بیٹے کی جدائی میں عرصہ دراز تک غمگین و آزردہ رہے مگر اسکا حال معلوم نہ ہوسکا اور نہ اس کی جدائی کو وصال میں بدل سکے۔

 سورة یوسف میں چار دعوے مذکور ہیں۔ (1) عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں غائبانہ امور کو جاننے کا کسی کو کوئی اختیار نہیں دیا گیا۔ (2) ۔ مالک و کارساز اور متصرف و مختار صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں، مافوق الاسباب امور میں اس نے کسی کو کوئی اختیار نہیں دے رکھا۔ (3) ۔ آپ کے سچے رسول ہیں اور اللہ کی طرف سے آپ پر وحی نازل ہوتی ہے۔ (4) انبیاء سابقین (علیہم السلام) کی طرح آپ پر بھی مصائب آئیں گی لیکن آخر کار کامیابی اور فتح  آپ ہی کے قدم چومے گی۔

پہلا اور دوسرا دعوی۔ (عالم الغیب اور متصرف صرف اللہ رب العزت ہی ہے)یہ دونوں دعوے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور سورت کی ابتداء سے لے کر رکوع 11 میں وَاَلْحَقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ تک انہی کا بیان ہے۔ یعقوب و یوسف (علیہما السلام) کا یہ واقعہ مختلف پندرہ احوال یا کڑیوں پر مشتمل ہے جن میں سے ہر کڑی ان دونوں دعو وں کو واضح اور ثابت کرتی ہے۔ الٓرٰ۔ تا۔ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ، تمہید ہے اس کے بعد قصہ شروع ہوتا ہے۔

 پہلا حال۔ اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْہِ ۔ تا۔ اٰیٰتٌ لِّلسَّائِلِیْنَ (رکوع 2) یوسف (علیہ السلام) نے اپنا خوب یعقوب (علیہ السلام) سے بیان کیا تو انہوں نے ہدایت فرمائی کہ یہ خواب بھائیوں کے سامنے بیان نہ کرنا۔

 دوسرا حال۔ اِذْقَالُوْا لَیُوْسُفُ (رکوع 2) ۔ تا۔ وَاللہُ الْمُسْتَعَانُ عَلیٰ مَا تَصِفُوْنَ (رکوع 2)۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے انہیں اپنے باپ کی نظروں سے اوجھل کرنے کا منصوبہ بنایا، پھر والد  سے سیر کے بہانے یوسف (علیہ السلام) کو لے جانے کی درخواست کی جسے انہوں نے ادنی تامل کے بعد قبول کرلیا۔ بھائیوں نے انہیں ساتھ لے جا کر جنگل میں ایک ویران کنوئیں میں ڈال دیا اور شکار کے خون سے ان کی قمیص لت پت کی اور رات کو روتے ہوئے گھر پہنچے اور یعقوب (علیہ السلام) سے عرض کیا کہ یوسف کو بھیڑئیے نے پھاڑ کھایا یہ اس کا خون آلود کرتہ ہے۔ یہ سب کچھ ہوا مگر ان باتوں کی اصل حقیقت کا علم یعقوب (علیہ السلام) کو نہ ہوسکا۔

 تیسرا حال۔ وَجَاءَتْ سَیَّارَۃٌ فَاَرْسَلُوْا وَارِدَھُمْ ۔ تا۔ وَکَانُوْا فِیْہِ مِنَ الزَّاھِدِیْنَ (رکوع 2) ادھر سے ایک قافلہ گذرا جس نے یوسف (علیہ السلام) کو کنوئیں سے نکال کر ساتھ لے لیا اور مصر میں جا کر فروخت کردیا مگران کی اس نقل و حرکت کا یعقوب (علیہ السلام) کو کوئی علم نہ تھا۔

 چوتھا حال۔ وَ قَالَ الَّذِیْ اشْتَرٰہُ مِنْ مِّصْرَ ۔ تا۔ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَایَعْلَمُوْنَ (رکوع 3) عزیز مصر انہیں خرید کر گھر لے آیا اور بیوی کو ان سے حسن سلوک اور اعزاز واکرام سے پیش آنے کی ہدایت کی۔

 پانچواں حال۔ وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ اٰتَیْنٰہُ حُکْمًا وَّ عِلْمًا۔ تا۔ اِنَّکِ کُنْتِ مِنَ الخٰطِئِنَ (رکوع 3) عزیز مصر کی بیوی یوسف (علیہ السلام) پر فریفتہ ہوگئی اور انہیں ورغلانے کی کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ نےمحض اپنی توفیق سے ان کو بچالیا۔ اسی اثنا میں عزیز مصر بھی گھر آپہنچا اور حقیقت حال جاننے کے بعد اس نے اپنی بیوی کو ملزم اور یوسف (علیہ السلام) کو بری قرار دیا۔

 چھٹا حال۔ وَ قَالَ نِسْوَۃٌ فِیْ الْمَدِیْنَۃِ ۔ تا۔ لَیَسْجُنُنّہٗ حَتّٰی حِیْنٍ (رکوع 4) ۔ اس واقعہ کا شہر میں چرچا ہونے لگا کہ عزیز مصر کی بیوی نے اپنے غلام کو بدنیتی سے ورغلانے کی کوشش کی ہے۔ عزیز مصر کی بیوی نے جب اپنا یہ چرچا سنا تو یوسف (علیہ السلام) کو پھانسنے کے لیے شہر کی عورتوں کو اپنے یہاں دعوت پر بلا کر ایک نیا جال بچھایا۔ جب اس میں بھی ناکام ہوگئی تو بدنامی سے بچنے کے لیے یوسف (علیہ السلام) کو بغیر کسی جرم کے جیل بھجوا دیا۔

ساتواں حال۔ وَ دَخلَ مَعَہُ السِّجْنَ فَتَیٰنِ تا۔ فَلَبِثَ فِیْ السِّجْنِ بِضْعَ سِنِیْنَ  (رکوع 5) ۔ یوسف (علیہ السلام) کے ہمراہ دو اور ملزم بھی قید خانہ میں داخل ہوئے، پھرانہوں نے خواب دیکھے اور یوسف (علیہ السلام) سے تعبیر کیلئے بیان کیے۔ انہوں نے تعبیر دینے سے پہلے ان کو مسئلہ توحید سمجھایا اور انہیں بتایا کہ میں اپنی قوم کے دین کو چھوڑ چکا ہوں جو نہ اللہ پر ایمان لاتی ہے نہ روز آخرت پر،جنہیں اس قوم نے معبود بنا لیا وہ صرف نام ہی نام ہیں اللہ نے اس پر کوئی سند نازل نہیں کی،اس لئے اللہ کے سوا کوئی متصرف و مختار اور پکار کے لائق نہیں۔ آخر میں یوسف (علیہ السلام) نے قید خانے کے دونوں ساتھیوں کو ان کے خوابوں کی تعبیر بتائی۔

 آٹھواں حال۔  وَقَالَ الْمَلِکُ اِنِّیْ اَرٰی سَبْعَ بَقَرَاتٍ  تا  وَ فِیہِ یَعْصِرُوْنَ  (رکوع 6) ۔ شاہ مصر نے ایک خواب دیکھا جسے اس نے تعبیر بتانے والوں  کے سامنے بیان کر کے اس کی تعبیر پوچھی۔ کوئی بھی خوب کی تعبیر تک رسائی حاصل نہ کرسکا اس لیے سب نے بادشاہ کے خواب کو خیال پریشان کہہ کر خاموشی اختیار کی جو شخص جیل سے رہا  ہوا تھا اسے یوسف (علیہ السلام) یاد آئے اور اس نے بادشاہ کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے اجازت دیجئے اس خواب کی تعبیر میں لے کر آتا ہوں وہ شخص فوراً باجازت خاص قید خانے میں یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچا اور بادشاہ کا خواب بیان کیا، انہوں نے اس کی تعبیر بتائی جو اس نے بادشاہ مصر کے سامنے حاضر ہو کر بیان کی۔

 نوواں حال۔  وَقَالَ الْمَلِکُ ائْتُونِیْ بِہٖ  تا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ  (رکوع 7) ۔ شاہ مصر تعبیر سن کر یوسف (علیہ السلام) کے علم و فضل اور فہم و فراست کا قائل ہوگیا اور انہیں فوراً جیل سے نکالنے کا حکم دیدیا۔ جب انہیں رہائی کا پیغام ملا تو انہوں نے اسی ایلچی کے ہاتھ بادشاہ سے کہلا بھیجا کہ پہلے ان عورتوں کے حال کی تحقیق کرو جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے۔ یوسف (علیہ السلام) کا مقصد یہ تھا کہ جیل سے باہر آنے سے پہلے ان کی پاکدامنی اور برأت سب پر واضح ہوجائے۔ چنانچہ ان عورتوں نے اقرار کیا کہ یوسف (علیہ السلام) پاکدامن اور بےگناہ ہیں۔ خود عزیز مصر کی بیوی نے اعتراف کیا کہ یوسف (علیہ السلام) سچے ہیں اور خود اسی نے ان کو ورغلانے کی کوشش کی تھی۔ یوسف (علیہ السلام) کی عصمت اور پاکدامنی ثابت ہوگئی اور وہ جیل سے باہر آئے۔ شاہ مصر نے انہیں اپنا مشیر خاص بنا لیا اور خود ان کی مرضی سے زراعت کا محکمہ ان کے سپرد کردیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو جیل سے نکال کر حکومت کے اس منصب بلند پر پہنچا دیا۔ مگر اس کے باوجود یعقوب (علیہ السلام) اپنے لخت جگر کی جدائی کے غم میں گھڑیاں گن کر وقت گذار رہے ہیں پہلے یہ معلوم نہ تھا کہ ان کا فرزند جیل میں ہے اور اب یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کا فرزند سعادت حکومت کے ایک نہایت بلند منصب پر فائز ہے۔

 دسواں حال۔  وَ جَآءَ اِخْوَۃُ یُوْسُفَ فَدَخَلُوْا عَلَیْہِ  تا  وَ عَلَیْہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ  (رکوع 8) ۔ جب ملک میں قحط پڑا تو یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹوں نے غلہ حاصل کرنے کے لیے مصر کا رخ کیا جب وہ یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو انہوں نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا مگر وہ ان کو نہ پہچان سکے۔ یوسف (علیہ السلام) نے بھائیوں کو تاکید کی کہ آئندہ وہ اپنے چھوٹے بھائی کو بھی ضرور ساتھ لائیں اور اپنے ملازموں کو حکم دیا کہ وہ ان کا سرمایہ ان کی بوریوں ہی میں ڈال دیں۔ جب وہ غلہ لے کر واپس گھر پہنچے تو یعقوب (علیہ السلام) نے پس وپیش کیا اور بیٹوں کو یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ یاد دلایا کہ جیسی تم نے یوسف کی حفاظت کی تھی ویسی ہی اس(بنیامین) کی کروگے۔ بعد میں انہوں نے بیٹوں سے اللہ کا عہد لیا کہ تم سوائے آسمانی حادثہ کے بنیامین کو ضرور واپس لاؤ گے۔

 گیارہواں حال۔  وَ لَمَّا دَخَلُوْا مِنْ حَیْثُ اَمَرَھُمْ اَبُوْھُمْ  (رکوع 8) تا  اِنَّا اِذًا لَّظٰلِمُوْن  (رکوع 9) ۔ اب کی بار بنیامین بھی ساتھ تھا اور سب بھائی مصر پہنچے اور والد کی ہدایت کے مطابق شہر کے مختلف دروازوں سے داخل ہو کر یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے۔ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائی بنیامین کو اپنے پاس رکھنے کا عزم بنایا اور اس کے مطابق آنکھ بچا کر اپنا پیمانہ بنیامین کے سامان میں رکھ دیا ،اور اعلان کر دیا گیا کہ شاہی پیمانہ کھو گیا ہے، اسے تلاش کیا جائے۔ ادھر تلاش کرنیوالے ملازموں نے کنعانی قافلے کو شبہہ کی بنا پر  تلاشی لی اور یوسف (علیہ السلام) کا پیمانہ بنیامین کے سامان سے مل گیا اس لیے اسے روک لیا گیا۔ بھائیوں نے عزیز مصر (یوسف (علیہ السلام) سے بہت منت سماجت کی کہ وہ کسی بھی قیمت پر بنیامین کو چھوڑ دیں مگر انہوں نے ایسا نہ کیا۔

 بارہواں حال۔  فَلَمَّا اسْتَیْئَسُوْا مِنْہُ خَلَصُوْا نَجِیًّا  تا  اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْن  (رکوع 10)۔ آخر سب بھائیوں نے مایوس ہو کرمشورہ کیا اور بڑے بھائی نے طے کیا کہ چونکہ وہ اپنے باپ کو اللہ کا عہد دے کر آئے ہیں اس لیے وہ تو مصر ہی میں رہے گا جب تک باپ اجازت نہ دے یا اللہ کی طرف سے کوئی صورت پیدا نہ ہوجائے۔ نو بھائی واپس وطن پہنچے اور سارا ماجرا یعقوب (علیہ السلام) سے کہہ سنایا۔ انہوں نے اسے بھی بھائیوں کی سازش قرار دیا حالانکہ وہ سب بنیامین کے معاملے میں بےقصور تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یعقوب (علیہ السلام) غیب داں نہ تھے۔ آخر انہوں نے اپنے بیٹوں کو سہ بارہ بھیجا اور فرمایا یوسف اور اس کے بھائی کی تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔

 تیرہواں حال۔  فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَیْہِ قَالُوْا  تا  وَاْتُوْنِیْ بِاَھْلِکُمْ اَجْمَعِیْن  (رکوع 10) ۔ اب تیسری بار بھائی یوسف (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے اور نہایت عاجزی سے عرض کیا ہمارے معمولی سرمائے کے بدلے مہربانی فرما کر ہمیں پورا غلہ عنایت فرما دیجیے۔ اب کی بار تو یوسف (علیہ السلام) بھی بھائیوں کی پر درد باتیں سن کر پسیج گئے اور اپنے کو قابو میں نہ رکھ سکے اور اپنے کو ظاہر کردیا۔ تمام بھائیوں نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا اور یوسف (علیہ السلام) سے معذرت کرنے لگے۔ یوسف (علیہ السلام) نے پیغمبرانہ شفقت و رحمت سے عام معافی کا اعلان فرما دیا۔ اور بھائیوں کو واپس وطن بھیجا تاکہ تمام اہل و عیال کو مصر لے آئیں۔

 چودہواں حال۔  وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِیْرُ  تا  اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ  (رکوع 11) ۔ جب یعقوب (علیہ السلام)بیٹوں کا قافلہ یوسف (علیہ السلام)کا کُرتا لے کر مصر سے روانہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی ان کو اس کی اطلاع دیدی اور انہوں اپنے پوتوں سے کہہ دیا کہ اگر تم مجھے سٹھیانے کا طعنہ نہ دو تو میں صاف کہدوں کہ مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔ جب قافلہ کنعان پہنچا تو بڑے بھائی نے یوسف ؑ کا کُرتا والد کے چہرے پر ڈالا جس سے ان کی بینائی جو کثرت بکاء سے کمزور ہوچکی تھی بحال ہوگئی۔

 پندہواں حال۔  فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلیٰ یُوْسُفَ  تا  وَ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ  (رکوع 11)۔ یعقوب (علیہ السلام) تمام اہل و عیال سمیت مصر پہنچ گئے یوسف (علیہ السلام) نے انہیں پورے اعزازو اکرام کے ساتھ اپنے گھر اتارا۔ والدین اور سب بھائی یوسف (علیہ السلام) کی تعظیم بجا لائے۔ اس طرح یوسف (علیہ السلام) کا خواب سچا ہوا۔

 تیسرا دعویٰ۔ ( آپ اللہ کے سچے رسول ہیں) سورة ہود میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کو جو وحی بھیجی گئی ہے اس کی تبلیغ فرمائیں اور اس میں سے کچھ بھی چھپا نہ رکھیں یہاں سورة یوسف میں فرمایا۔  ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَاءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ  (رکوع 11)۔ بلاشبہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور آپ پر اللہ کی طرف سے غیب کی باتیں بذریعہ وحی نازل کی جاتی ہیں۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کا قصہ بھی عجیب خبروں میں سے ہے، جب وہ یوسف (علیہ السلام) کو ٹھکانے لگانے کا منصوبہ بنا رہے تھے اس وقت آپ وہاں موجود نہ تھے یہ سب کچھ اللہ نے وحی کے ذریعے آپ کو بتایا ہے۔

  اَفَاَمِنُوْا اَنْ یَّاتِیَھُمْ۔۔ الخ  (رکوع 12) ۔ تخویف دنیوی ہے۔  قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْ ۔۔الخ  طریق تبلیغ ہے۔  وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ۔۔ الخ  یہ سوال مقدر کا جواب ہے۔ مشرکین نے کہا یہ ناممکن ہے کہ پیغمبر بھی ہو اور بشر بھی تو جواب دیا گیا کہ پہلے جتنے بھی پیغمبر بھیجے گئے وہ سب کے سب بشر اور انسان ہی تھے۔  اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا  تخویف دنیوی ہے۔ پہلے مکذبین کا حال دیکھو ان کا کیا حشر ہوا اور ان کے انجام بد سے عبرت حاصل کرو۔

چوتھا دعویٰ۔ (دعوت وتبلیغ کی راہ میں اگرچہ مصائب ہیں مگرآخری کامیابی آپ ہی کی ہے)  حَتّٰی اِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ ۔ انبیاء سابقین (علیہم السلام) کو تبلیغ توحید میں بڑی بڑی مصیبتوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن انجام کار کامیابی انہیں ہی نصیب ہوئی اور ان کے دشمن صرف خسارے ہی میں رہے۔

:مختصر ترین خلاصہ

اللہ کے سوا کوئی عبادت اور پکار کے لائق نہیں، اللہ تعالیٰ ہی کارساز اور عالم الغیب ہے اس کے سوا کوئی کارساز اور عالم الغیب نہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  اللہ کے سچے رسول ہیں،وہ نہ ہی کلام خود گھڑ کر لوگوں کو سناتے ہیں نہ ہی وہ عالم الغیب ہیں، بلکہ جواللہ انکی طرف وحی کرتا ہے،اسے ہی لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کو ماننے اور زبان سے اس کی توحید کا اقرار کرنے کے باوجود مشرک ہوتے ہیں۔آخر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اعلان کروا دیا  کہ اللہ تعالیٰ کی توحید ہی میری اور میرے متبعین کی راہ ہے۔ میں اور میرے متبعین ہر قسم کے شرک سے بیزار ہیں۔