زکوة اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے تیسرارکن ہے، جو مال کی طہارت، روح کی پاکیزگی، اور معاشرتی عدل و توازن کا ضامن ہے۔ یہ کوئی صرف مالی لین دین نہیں بلکہ ایک عظیم عبادت ہے جو رب تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرتی ہے اور بندے کے دل سے بخل، حرص، لالچ اور دنیا پرستی کو نکالتی ہے۔ قرآن مجید میں زکوة کا ذکر اکثر صلاة کے ساتھ ساتھ آیا ہے۔فرمایا: وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ
صلاۃ قائم کرو اور زکوة ادا کرو۔(البقرہ: 43)
یہ تکرار اس بات کی دلیل ہے کہ صلوة سے بندہ اللہ سے جڑتا ہے اور زکوة سے مخلوق سے۔ دینِ اسلام بندگیِ رب اور خدمتِ خلق کا حسین امتزاج ہے، جس کا عملی مظہر زکوة ہے۔
زکوة کو قرآن نے فلاح کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ فرمایا کہ
قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ
بیشک کامیاب وہ ہے جس نے پاکیزگی اختیار کی۔(الأعلى: 14)
یعنی کامیاب وہ ہے جس نے تزکیہ کیا۔ اور یہ تزکیہ محض روحانی یا اخلاقی نہیں بلکہ مالی بھی ہے، جیسا کہ سورہ التوبہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا
ان کے مالوں سے صدقہ (زکوة) لے لو تاکہ تم اس کے ذریعے ان کو پاک اور پاکیزہ کر دو۔(التوبہ: 103)
نبی ﷺ کو حکم دیا گیا کہ وہ اہل ایمان سے صدقہ یعنی زکوة لیں تاکہ ان کے مال بھی پاک ہوں اور ان کی نفوس بھی۔ جو شخص زکوة نہیں دیتا، وہ درحقیقت اپنے مال کی برکت کو ضائع کرتا ہے اور نفس کی تطہیر سے محروم رہتا ہے۔
زکوة دراصل ایک جامع نظامِ معیشت کی بنیاد ہے۔ یہ سرمایہ کو گردش میں لاتی ہے، امیروں کے مال کو غریبوں کے حق میں لگاتی ہے اور سماج کو طبقاتی فرق، غربت، حسد اور محرومی سے بچاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ
تاکہ یہ (دولت) صرف تمہارے امیروں کے درمیان ہی گردش نہ کرتی رہے۔ (الحشر: 7)۔
یعنی دولت صرف امیروں کے درمیان ہی گردش نہ کرے۔ زکوة کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا نظام دیا ہے جس سے مال کا ارتکاز ٹوٹتا ہے، اور ہر مستحق کو اس کا حق پہنچتا ہے۔
زکوة کے تارکین کے بارے میں قرآن مجید میں شدید وعید آئی ہے۔ فرمایا کہ
وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، تو انہیں دردناک عذاب کی خبر دے دو۔(التوبہ: 34)
جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، ان کے لیے دردناک عذاب کی بشارت ہے۔ آگے فرمایا کہ یہ اموال قیامت کے دن تپائے جائیں گے اور ان سے ان کے جسم داغے جائیں گے۔
نبی ﷺ نے بھی اسی کی وضاحت کی، جیسا کہ صحیح مسلم میں حدیث ہے
ما من صاحبِ ذهبٍ ولا فضةٍ لا يؤدي منها حقَّها، إلا إذا كان يومُ القيامةِ، صُفِّحَتْ له صفائحُ من نارٍ
جو شخص سونا یا چاندی کا مالک ہو اور اس کا حق ادا نہ کرے، تو قیامت کے دن اس کے لیے آگ کی تختیاں بنا کر انہیں گرم کیا جائے گا۔(صحیح مسلم: 987)
زکوة کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے فوراً بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان قبائل سے قتال کیا جنہوں نے زکوة دینے سے انکار کیا۔ انہوں نے فرمایا
“والله لأقاتلن من فرَّق بين الصلاة والزكاة”
اللہ کی قسم! میں ضرور ان سے قتال کروں گا جو صلاۃ اور زکوة میں فرق کرتے ہیں۔(بخاری: 1399)
یعنی میں ضرور ان لوگوں سے قتال کروں گا جو صلاة اور زکوة میں تفریق کرتے ہیں۔ ان کا یہ مؤقف اس بات کی دلیل ہے کہ زکوة، اسلام کا ایسا اہم رکن ہے کہ اس کا انکار کرنے والا اسلام سے خارج ہو جاتاہے۔
زکوة کا مصرف بھی قرآن نے واضح طور پر بیان کیا ہے۔ فرمایا
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ
صدقات تو صرف فقراء، مساکین، زکوة جمع کرنے والے کارکنان، دل جوڑنے کے لیے، غلام آزاد کرانے کے لیے، قرض داروں کے لیے، اللہ کی راہ میں، اور مسافروں کے لیے ہیں۔
(التوبہ: 60)
یعنی زکوة آٹھ قسم کے افراد کو دی جا سکتی ہے۔ یہ مکمل فلاحی و سماجی نظام ہے جو اسلام نے صدیوں پہلے مرتب کر دیا اور آج کی جدید ریاستیں جس کی صرف خواہش کرتی ہیں۔
زکوة کا ادا نہ کرنا نہ صرف فرد کا گناہ ہے بلکہ اجتماعی معاشی نظام کو متاثر کرنے والا جرم بھی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا
ما منع قومٌ الزكاةَ إلا مُنعوا القطرَ من السماءِ
جب کوئی قوم زکوة روک لیتی ہے، تو اللہ ان سے آسمان کی بارش روک دیتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ: 4019)
یعنی جو قوم زکوة سے روگردانی کرتی ہے، اللہ ان پر آسمان سے بارش روک دیتا ہے۔ گویا زکوة نہ دینے کا نقصان صرف آخرت میں عذاب کی صورت نہیں بلکہ دنیا میں بھی قحط، مہنگائی اور بے برکتی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
زکوة کا اصل فلسفہ یہ ہے کہ مال پر صرف انسان کا ذاتی حق نہیں، بلکہ اس میں دوسروں کا بھی حق موجود ہے۔ قرآن میں فرمایا
وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ
اور ان کے مال میں مانگنے والے اور محروم کا حق ہوتا ہے۔(الذاریات: 19)
زکوة وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے یہ حق عملی طور پر ادا ہوتا ہے۔ اگر مالدار افراد صحیح طریقے سے زکوة دیں تو معاشرے میں غربت کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ کوئی صدقہ یا احسان نہیں بلکہ ایک واجب فریضہ اور فرض عبادت ہے۔
زکوة کی ادائیگی انسان کے دل کو بخل اور لالچ سے پاک کرتی ہے۔ فرمایا
وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اور جو لوگ اپنے نفس کی بخل سے بچا لیے گئے، وہی کامیاب ہونے والے ہیں۔ (الحشر: 9)
زکوة دینے والا شخص دراصل اپنی ذات کے خلاف جہاد کرتا ہے، اپنے مال کو اللہ کی راہ میں دیتا ہے اور اس کے ذریعے اپنے نفس کی اصلاح کرتا ہے۔ یہی تزکیہ نفس کی عملی صورت ہے۔
نبی ﷺ نے بار بار زکوة کی تلقین کی اور اس پر تاکید فرمائی۔ متعدد مواقع پر صحابہ کرام کو زکوة کے مال کی تقسیم پر مامور کیا۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ
بعث رسول الله معاذًا إلى اليمن فقال: أعلِمْهم أنَّ اللهَ افترض عليهم صدقةً تؤخذ من أغنيائِهم فتردُّ في فقرائِهم
اللہ نے ان پر صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالداروں سے لیا جائے اور ان کے فقراء کو لوٹایا جائے۔ (بخاری: 1395)
یعنی مالداروں سے لیا جائے گا اور فقراء کو دیا جائے گا۔ یہ الفاظ اسلامی معاشی توازن کی بنیاد ہیں۔
زکوة انفرادی اطاعت کا مظہر ہونے کے ساتھ ساتھ اجتماعی فلاحی نظام کی روح بھی ہے۔ اگر اسلامی حکومت قائم ہو تو زکوة کا باقاعدہ نظم ہونا چاہیے، جس کے ذریعے ریاست غربا، یتامٰی، قرض داروں، مسافروں اور دیگر مستحقین کی مدد کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے خود زکوة وصول کرنے والوں کی تعیین فرمائی اور اس کی نگرانی فرمائی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ زکوة صرف انفرادی صدقہ نہیں بلکہ ایک باقاعدہ اقتصادی نظام ہے۔
زکوة میں تاخیر یا اسے چھپانا بھی سخت گناہ ہے۔ فرمایا کہ
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ
جو لوگ اس میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا، یہ ہرگز ان کے لیے بہتر نہیں، بلکہ یہ ان کے لیے برا ہے، قیامت کے دن وہی مال ان کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا۔(آل عمران: 180)
زکوة ایمان کے ساتھ اتنی جڑی ہوئی ہے کہ اسے ترک کرنا یا اس کا انکار کرنا ایمان کی نفی بن سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
لا إيمانَ لمن لا أمانةَ لهُ، ولا دينَ لمن لا عهدَ لهُ
اس کا ایمان نہیں جس میں امانت نہیں، اور اس کا دین نہیں جو وعدہ پورا نہیں کرتا۔(مسند احمد: 12565)
زکوة بھی ایک شرعی وعدہ ہے جو بندے نے رب کے ساتھ کیا ہے۔ اسے توڑنا دیانت، امانت اور ایمان تینوں کا زوال ہے۔
زکوة نہ صرف مال کی صفائی اور دل کی پاکیزگی ہے بلکہ قیامت کے دن نجات کا ذریعہ بھی ہے۔ جن لوگوں نے زکوة دی، ان کے مال میں برکت ہوئی، ان کی دعائیں قبول ہوئیں، اور ان کا رب سے تعلق مضبوط ہوا۔ جنہوں نے بخل کیا، وہ خسارے میں رہے۔ زکوة ایک زندہ امت کا نشان ہے، جو اللہ کی زمین پر اس کے احکام کے نفاذ کے لیے کھڑی ہو۔ جو قوم زکوة کو قائم کرتی ہے، اللہ اس کو امن، رزق اور فلاح سے نوازتا ہے۔