|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

ﷲ کا قرآن بڑی نعمت ہے جو اﷲ نے ہمیں عطا کیا ہے، یہ کتاب جتنی عظیم ہے اسکی عظمت کا کوئی ٹھکانہ نہیں چونکہ یہ اﷲ کی کتاب ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عظمت قرآن کو اس نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ جناب یہ قرآن ہے اسکی پیٹھ نہیں کرنی اس کے ورقوں کی پیٹھ نہ کی جائے اسکی جلد کی پیٹھ نہ کی جائے توجہ اس بات پر لائیں کہ ظلم کی انتہا بھی اسی کتاب کے ساتھ ہوئی۔ اسکے ساتھ اتنا ظلم ہوا، اتنا ظلم ہوا کہ جسکی ظلمت کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں۔
یہ کتنی مظلوم بنی!آخر کار قرآن کو یہ الفاظ استمعال کرنا پڑے۔

اَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ القُراٰنَ اَم عَلٰی قُلُوبٍ اَقفَالُہَا
کیا یہ قرآن میں غورو فکر نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر ان کے تالے لگ گئے ہیں ۔ (محمد-24)

!معززین
کہنے کو تو اس کتاب(قرآن) کی عظمت کے گن گانے والے لاتعداد ہیں۔ اورحقیقت یہ ہے کہ صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر صبح تک اس کے ایک ایک حکم کو اپنی زبان اور عمل کی ٹھوکروں سے اُڑایا ہے ۔ کیا نہیں اُڑایا؟

کیا قرآن یہی کہتا ہے کہ نبیوں کو اﷲ کا بیٹا بناؤ؟

کیاقرآن یہی کہتا ہے کہ جس نبی نے یہ تعلیم دی کہ دربار سازی قبہ سازی منع ہے اسی کا دربار بناؤ پھر یہ عقیدہ رکھو کہ اس میں وہ زندہ ہیں حاجت روائی کرتے ہیں مشکل کشائی کرتے ہیں بندہ پروری کرتے ہیں؟

کیاقرآن یہی کہتا ہے کہ غیر اﷲ کی نظر و نیاز کرو جانور تمہیں اﷲ نے دیئے انکا رزق اﷲ نے دیا اور جا جا کر ذبح انہیں آستانوں پر کرو؟

کیا قرآن یہی کہتا ہے کہ اﷲ کے سوا دوسروں سے مدد مانگو، نبیوں،ولیوں کے نام کی دھوائیاں دو؟ یا رسول اﷲ مدد، یا مولا علی مدد، المدد یا غوث اعظم، ادرکنی یا رسول اﷲ، انظر حالانا یا رسول اﷲ ؟

کیا قرآن یہی کہتا ہے کہ دینی امور پر اجرت لو اپنی اذان  ،صلاۃ ، تروایح ، خطبہ جمعہ ، خطبہ نکاح  بیجو۔ عید نماز پڑھانے کے پیسے لو،میت کو غسل دینے کے پیسے لو؟

قرآن یہی کہتا ہے کہ جھوٹ بولو،یتیموں کا مال کھاؤ۔عدالتوں میں جا جا کر جھوٹی قسمیں اٹھاؤ، رشوت لو اور دو، کم تولو، گاہک کے ساتھ دھوکہ کرو، کیسی کا حق مار کر اپنے گھر کی بنیاد رکھو، سودی کاروبار کرو؟

“الف” سے لے کر “ی” تک قرآن کے ایک ایک حکم کو ٹھوکروں سے اڑایا ہے۔

اور خوش اس بات سے ہیں کہ ہم قرآن کی پیٹھ نہیں کرتے۔۔۔۔۔قرآن کو پیٹھ نہ دینا اسکا صحیح معنی  یہ ہے کہ قرآن کے حکموں سے اعراض نہ کرنا، اس سے منہ نہ موڑنا، اسکے خلاف عقیدہ نہ بنانا، اسکے خلاف فتوی نہ دینا، اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجانا ، اس کے حکموں کا ٹھٹھہ اور مذاق نہ بنانا ۔ یہ تھا اسکا صحیح معنی!

وَ قَالَ الرَّسُولُ یٰرَبِّ اِنَّ قَومِی اتَّخَذُوا ہٰذَا  القُراٰنَ  مَہجُورًا

  اور رسول کہے گا اے میرے رب میری قوم نے قرآن کو نشانہ تحضیک بنا رکھا تھا(الفرقان-30)

:ایک -لا- کا انکار پورے قرآن کا انکار ہے

لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ
نہیں ہے کوئی معبود سوائے اس کے۔ (آل عمران-18)

ہماری قوم نے اس کےمقابلے میں کتنے معبود بنا رکھے ہیں؟بلخصوص آج علماء و مشائخ اسکے الہٰ ہیں،فوت شدہ بزرگ اسکے الہٰ ہیں،انکی پکار لگاتے ہیں ،انکے نام کی نذرو نیاز کرتے ہیں۔ اپنے علماء سے کبھی سوال نہیں کرتے آخر وہ کیوں انکو قرآن و حدیث کےخلاف  کیوں چلا رہے ہیں۔الغرض کہ اس قوم نے الہٰ واحد کے علاوہ لا تعداد معبود بناکر کلمہ نجات کے -لا- کا انکار کردیا۔

لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِه
اللہ اور اسکے رسول سے آگے نہ بڑھو۔ (الحجرات-1)

یہاں اپنی سوچ اور اپنے مسلک اوراپنے منہج کو اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے راستہ پر فوقیت دی جارہی ہے۔  اور دین میں کتنی ہی نئی ایجادات کر ڈالیں۔تیجہ، دسواں،چالیسواں، قل خوانی، ایصال ثواب، ختم شریف، قرآن خوانی ، شب براءت، عرس و میلے، جشن عید میلاد النبیﷺ، پیری مریدی و گدی نشینی،کونڈے منانا،گیارہوں منانا وغیرہ۔ اپنے قدموں کو اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے آگے بڑھا کر اس -لا- کا بھی انکار کردیا۔

وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِىْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا 
اور نہ بیچو میری آیات کو حقیر قیمت پر۔ (البقرہ-41)

یہاں دینداری کو دوکانداری  بنانے کا معاملہ ایسا ہے کہ  پورا کا پورا دین  بیچاجاتا ہے۔ وقت کے نام پر اذان کی اجرت نماز کی اجرت، خطبہ جمعہ کی اجرت، عیدین کی اجرت،تراویح کی اجرت،قرآن پڑھانے کی اجرت، برکت کی نیت سے قرآن پڑھوانے کا کاروبار،مردے بخشوانے کا کاروبار  کر کے الغرض کہ ہر طرح سے اللہ کی آیات پر قلیل قیمت  وصول کی جارہی ہے اور زور و شور سے اس -لا- کا بھی انکار کیا جا رہا ہے۔

اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ
بیشک اللہ نہیں معاف کرے گا کہ اسکا شریک بنایا جائے۔ (النساء-116)

اسکے برعکس آج ہماری قوم یہ عقیدہ بنائے بیٹھی ہےکہ حقوق اللہ معاف ہو جائیں گے مگرحقوق العباد معاف نہیں ہوں گے۔ حالانکہ اللہ کی ذات، صفات، حقوق و اختیارات میں اسکی مخلوق کو اسکے ساتھ شریک کرنے سے بڑا ظلم اللہ کے حق میں اور کیا ہو سکتا  ہے؟ اللہ نے واضح طور پر فرمادیا کہ اللہ اپنے حقوق میں شرک کی خیانت کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔مگر ہماری قوم ضد و ہٹ درہمی میں بانگ دہل اس -لا- کا بھی انکار کر رہی ہے۔

لَا تَتَّخِذُوْٓا اِلٰـهَيْنِ اثْـنَيْنِ
دو الہٰ نہ بناؤ۔ (النحل-51)

آج نام نہاد مسلمانوں کے عقائد یہ ہیں کہ اللہ بھی جھولیاں بھرتا ہے اسکےنبی بھی جھولیاں بھرتےہیں۔اللہ بھی داتا، علی ہجویری بھی داتا۔ اللہ بھی مشکل کشا ، علیؓ بھی مشکل کشا ہیں۔ اللہ بھی غوث، عبدالقادر جیلانی بھی غوث ہے۔ اللہ بھی لجپال ہے،شہباز قلندر بھی لجپال ہے۔ اللہ بھی قسمت کھری کرتا ہے، امام بری بھی قسمت کھری کرتا ہے۔ مگر اللہ فرما رہا ہے کہ دو الہٰ نہ بناؤ ۔مگر آج اس قسم کے بیشمار کفریہ و شرکیہ عقائد سے خود کو آلودہ کر کے اس -لا- کا بھی بڑی ڈھٹائی سے کفر کیا جا رہا ہے۔

لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ
یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ (المائدہ-51)

مگر یہاں پورا دین انہی سے لیا ،انہوں نے اپنے اپنے پیغمبر کو اللہ کا جز بنایا تو اِنہوں نے بھی ایسا ہی کیا،دین میں غلو کا مسئلہ بھی یہود و نصاریٰ  سے لیا،دین بیچنے کا راستہ بھی یہود و نصاریٰ  سے لیا،  انہوں نے کلام اللہ میں تحریفیں کیں انہوں نے بھی معنوی تحریف کی ،انہوں نے بھی حلال و حرام میں اپنا اختیار سمجھا انہوں نے بھی سمجھا۔ حتی کہ حکومت چلانے کا طریقہ بھی یہود و نصاریٰ سے لیا ، معیشت چلانا کا طریقہ بھی یہود و نصاریٰ سے   لیا ۔حکومتی سطح پر  انکے ساتھ کرسمس   کا کیک کاٹا جاتاہے۔ انہیں میری کرسمس کہا جاتا ہے ۔اس قدر انہیں اپنا دوست بنا کر حکومتی سطح  تک  آیت میں درج  اس”لا”  کا انکار کیا جا رہا ہے۔

لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ 
 نہیں فرق کرتے ہم رسولوں میں۔ (البقرہ-285)

یہاں ایڑی چوٹی کا زور لگا کر یہ کہا جاتا ہے کہ محمد نہ ہوتے تودنیا نہ ہوتی،سارے نبی تیرے در کے سوالی، سرکار دو عالم، سرور کونین و ثقلین ،افضل البشر ہیں ۔ تمام انبیاؤں سے  افضل،اکمل،اجمل،اعلیٰ ہیں ۔ آپ ہی وہ ہیں جنکا سایہ نہیں  تھا۔ آپ پر مکھی نہیں بیٹھتی تھی ۔ آپ کا جسم اتنا نفیس تھا کہ سورج کی کرنیں آر پار ہوجاتی تھیں ۔اور کہا جا رہا ہے کہ سب سے  اولی و اعلی ٰ ہمارا بنی، سب سے بالا ؤوالاہمارا نبی، خلق سے اولیاء، اولیاء سے رسل اور رسولوں سے اعلی ہمارا نبی۔  اس طرح بڑی شد و مد کے ساتھ ا س آیت میں  بھی درج -لا- کا انکار کیا جا رہا ہے۔

لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ
اپنے دین میں غلو نہ کرو۔(النساء-171)

یہاں اللہ کی شان میں غلو کایہ عالم ہے کہ عقیدہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود  بنایا ۔نبی ﷺ کی شان میں غلو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ نے تمام مخلوقات سے پہلےنبی ﷺ کا نور تخلیق کیا۔آدمؑ کی دعا نبی ﷺ کے وسیلے سے قبول کی۔ اولیاء کے متعلق  کہتےہیں کہ اللہ اللہ کرنے سے اللہ نہیں ملتا ،اللہ والے اللہ سے ملاتے ہیں۔جبکہ وہ مر کر بوسیدہ ہڈیاں ہو چکے۔پھر اللہ جانے کونسی کونسی نماز ایجاد کر کے نمازو ں میں بھی غلو کرتے ہیں ۔کونسا کونسا درود ایجاد کر کے درود میں بھی غلو کرتے  ہیں ۔الغرض کہ پورا دین غلو سے لت پت  کر کے ا س  آیت میں  بھی درج “لا”  کا انکار کیا جا رہا ہے۔

لَا تُحِلُّوْا شَعَاۗىِٕرَ اللّٰهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ شعائر اللہ
شعائر اللہ کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ حرمت والے مہینوں کی۔ ( المائدہ-2)

یہاں شعائر اللہ کی بے حرمتی  کا حال یہ ہے کہ جو مٹی رسول اللہ ﷺ کے جسد اطہر سے مس ہے وہ کعبہ اور عرش و کرسی سے بھی افضل ہے۔(معاذاللہ)، ماہ صفر منحوس ہے، اس میں کوئی شادی بیاہ کی تقریب نہیں کرنی چاہیے، اس میں بلائیں اترتی ہیں اور کچھ نہ ملے تو ماہ محرم میں خود ہی کو پیٹ کر بین کیا جاتا ہے۔ شعائر اللہ کی خوب بے حر متی کی جاتی ہے۔ اورپھر ایک بار آیت میں درج  -لا- کا انکار کیا جاتا ہے۔

لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ
کہہ دیجئے کہ میرے پاس اللہ کے خزانے نہیں ہیں۔ (الانعام-50)

کہنے لگے اللہ کے پلے میں وحدت کے سوا رکھا ہی کیا ہے جو بھی مانگناہے در مصطفی سے مانگ ،بھر دو جھولی میری یا محمد لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی۔سارے نبی تیرے در کے سوالی ۔یعنی آپکو  کُل کائنات کا مالک سمجھ کر  آیت میں درج  “لا”  کا انکار کیا جارہا ہے۔

وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ
اور کہہ دو میں عالم الغیب نہیں ہوں۔ (الانعام-50)

یہاں رسول اللہ ﷺ کوعالم الغیب سمجھا، کہنے لگے کہ نبی ﷺکو “ماکان ومایکون” جو ہو گیا اور جو کچھ ہو گا سب کا علم ہے۔ وفات کے بعد بھی آپ برابرعالم الغیب ہیں۔ انکو فلاں چیز کا بھی علم تھا فلاں کا بھی علم تھا،ہر ہر چیز کووہ جانتے ہیں۔ قیامت کی نشانیاں تک بتائی ہیں ۔قیامت کے حالا ت بتائے ہیں۔میری امت کا آخری شخص جو جہنم سے نکال کر جنت میں ڈالا جا رہا ہے میں اسے دیکھ رہا ہوں۔ا س طرح کی توجیح پیش کر کے پھر ایک بار آیت میں درج -لا- کا انکار کیا جاتا ہے۔

وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ
اور کہہ دو کہ میں فرشتہ نہیں ہوں۔(الانعام-50)

یہاں رسول اللہ ﷺ کو نور توکہنے لگے  ہی ستم در ستم نور من نور اللہ کہنے لگے،  نور والا آیا ہے نور لے کر آیا ہے ، سارے عالم میں یہ دیکھو کیسا نور چھایا ہے،تیری نسل پاک میں بچہ بچہ نور کا تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ کو نوری مخلوق مان کر آیت میں درج  -لا- کا انکار کیا جاتا ہے۔

وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا
اور جب یہ مر جائیں توکبھی بھی انکی نماز (جنازہ) نہ پڑھو۔ ( التوبہ-84)

یہاں جانتے بوجھتے کہ باپ شرک کرتا رہا ،ماں شرک کرتی رہی رشتے دار شرک کرتے  کرتے فوت ہوئے، اب جنازہ اس لیے پڑھتے ہیں کہ کوئی کیا کہے گا کہ ماں باپ کا جنازہ نہیں پڑھا ۔اللہ کےحکم اور وقار کو بھلا دیا ، طاغوت  کا خوف دل میں رکھ کر آیت میں درج  -لا- کا انکار کیا جاتا ہے۔

وَلَا تَرْكَنُوْٓا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا
مت جھکو ظالموں کی طرف۔(ھود-113)

آج ایک مسلک والا دوسرے کو غلط سمجھتا ہے، اس سے مسجد جدا کی ،مدرسہ جدا کیا، فقہ جدا کی۔ مگر جب بات آئی ایمان خالص اور اسلام دشمنی کی ، دنیاوی مفادات کی،سیاسی گٹھ جوڑ کی پھر کوئی کفر و شرک کرنے والا  ہی کیوں نہ ہو، قبروں کا چاٹنے والا ہی کیوں نہ ہو، صحابہ پر بھونکنے والا ہی کیوں نہ ہو، سب اپنے اپنے مفاد کے لئے ہاتھوں میں ہاتھ دیے  ایک دوسرے کو امام بھی بنایا جا رہا ہے۔ایک دوسرے کو سچا اور امانتدارسمجھا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے کی طرف جھک ہوئے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر آیت میں درج -لا- کا انکار کیا جاتا ہے۔

وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ
اور نہ پکارو اللہ کے سوا کسی کو۔ (یونس-106)

یہاں پکار”من دون اللہ” کا معاملہ روز روشن کی طرح عیاں ہے مشکل کشائی میں،حاجت روائی میں، حصول رزق و اولاد کے لئے ،  اللہ جانے کس کس کو حاجت روا و مشکل کشا سمجھ کر پکاریں لگائی جا رہی ہیں۔شیطان کے دام میں پھنس کر کہنےلگے کہ اللہ ہماری سنتا نہیں ان کی موڑتا نہیں ۔اورکتنا واضح طور پر آیت میں درج  “لا” کا انکار کیا جاتا ہے۔

اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى
بیشک آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ ( النمل-80)

یہاں عقیدہ یہ ہے کہ مردے صرف سنتے ہی نہیں بلکہ دیکھتے بھی ہیں بولتے بھی ہیں ،سلام کا جواب دیتے ہیں، پہچان بھی لیتے ہیں، اعمال سے بھی واقف ہیں۔ گویا مردے نہ ہوئے باشعور زندے ہوئے۔ انہی شرکیہ عقائد نے قبر پرستی و صوفی ازم جیسی لعنت کو دن دگنی اور رات چگنی ترقی دی ہے۔اور مردے کو زندہ مان کر آیت میں  بھی درج -لا- کا انکار کیا جاتا ہے۔

وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ
اور شیطان کے نقشہ قدم کی پیروی نہ کرو۔ (البقرہ-208)

آج ہماری قوم قبر پرستی،پکار لی غیر اللہ ،محفل میلاد،ایصال ثواب، جادو ٹونے، تعویذ گنڈے، رقص و موسیقی، فحش لباس، تصویر کشی، مخلوط محافل اور نظام جمہوریت کے زریعے شیطان کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے۔ آیت میں بھی درج -لا- کا انکار کیا جاتا ہے۔

وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءَ
اور اللہ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو۔ (الاعراف-3)

واضح حکم کے بعد بھی یہاں علماء و مشائخ کی کفر و شرک پر مبنی کتابوں کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھے ہیں ،اور ان  سے اتنی  محبت کرنے لگے جتنی محبت اللہ سے کرنی چایئے۔ انہیں شریعت ساز وقانون ساز سمجھا ، خواہ انکا قانون دین خالص سے کتنا ہی متضاد کیوں نہ ہو کسی بھی قیمت پر اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔اور ضد و عناد میں اس آیت میں  بھی درج واضح حکم کے بعد بھی یہاں علماء و مشائخ کی کفر و شرک پر مبنی کتابوں کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھے ہیں ،اور ان  سے اتنی  محبت کرنے لگے جتنی محبت اللہ سے کرنی چایئے۔ انہیں شریعت ساز وقانون ساز سمجھا، خواہ انکا قانون دین خالص سے کتنا ہی متضاد کیوں نہ ہو کسی بھی قیمت پر اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔اور ضد و عناد میں اس آیت میں بھی -لا- درج کا انکار کیا جاتا ہے۔

کا انکار کیا جاتا ہے۔

وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ
اور نہیں ہے تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی دوست اور مددگار۔(البقرہ-107)

واضح  حکم کے بعد بھی ہماری قوم نےاللہ کے سوا مافوق الاسباب لاتعداد مددگار بنائے  کسی کو داتا کہا،کسی کو  دستگیر،کسی کو مشکل کشا،کسی کو غوث اعظم،کسی کو سخی لجپال،کوئی گنج شکر ہے،کوئی شافی الامراض ہے،کوئی بندہ نواز ہے،کسی کو امام بری کہہ کر عقیدے و نظریے  مظبوط کر کے انکی پکاریں لگا لگا کر آیت میں درج -لا- کا انکار بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

وَلَآ اُشْرِكُ بِرَبِّيْٓ اَحَدًا
اور نہ شریک کرو اپنے رب کے  ساتھ کسی ایک کو بھی(الکھف-38)

ایک شریک بھی اللہ کی غیرت کو گوارا نہیں ہے۔ مگر یہاں تو شریکوں کی فوج ہے۔ کہ یہ دنیا کا نظام چلانے میں اللہ کے شریک ہیں۔ اور اللہ پر الزام لگا کر کہتے ہیں کہ اللہ نے خود انکو اختیارات دئیے ہیں  اس لئے یہ عطا کرتے ہیں اورتصرف کرتے ہیں۔طرح طرح کے الزامات  و بہتان باندھ کر ،حیلے اور تاویلیں کرکے  آیت میں درج -لا- کا انکار ٹھوس قدمی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

لَا تُفْسِدُوْا فِى الْاَ رْضِ
زمین میں فساد نہ کرو۔(البقرہ-11)

یہاں اعلیٰ اعلان کفر و شرک کو فروغ دے کرفساد فی الارض ہو رہا ہے، بدعات و رسومات کو فروغ دے کر فساد فی الارض ہو رہا ہے، فحاشی اور عریانی کو فروغ دے کر فساد فی الارض ہو رہا ہے، جمہوری نظام کو فروغ دے کر فساد فی الارض ہو رہا ہے، سودی نظام کو فروغ دے کا فساد فی الارض  کے علمبردار بنتے جارہے ہیں۔اس طرح اس -لا- کا انکار بھی ان پر چسپاں ہوگیا۔

وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ
اور نہ گڈ مڈ کرو حق کو باطل کے ساتھ ۔(البقرہ-42)

ما تحت الاسباب پکار نا حق تھا  مگر مافوق الاسباب  پکار کوجو باطل ہے اسے حق کے ساتھ ملا دیا، وسیلے کی تین اقسام حق تھیں چوتھی قسم مردوں کو وسیلہ  جو باطل ہے اسے حق کے ساتھ ملا دیا، اللہ نے نام کی نذرونیاز دینا حق ہے مگر آستانے پر ذبح کرنا باطل ہے اسے حق کے ساتھ ملا دیا، قبرستان میں سلام کرنا حق ہے مگر سننے کا عقیدہ رکھنا باطل ہے اسے حق کے ساتھ ملا دیا،عذاب قبر حق ہے مگر اس دنیاوی قبر میں سمجھنا باطل اسے حق کے ساتھ ملا دیا،  صدقہ جاریہ حق ہے مگر ایصال ثواب باطل ہے اسے حق کے ساتھ ملا دیا ۔اسطرح اس  آیت میں  بھی درج  -لا- کا انکار کیا جاتا ہے۔

لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَاۗءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ
آپس میں خون نہ بہاؤ اور ایک دوسرے کو گھروں سے  نہ نکالو(البقرہ-84)

باہمی حسن سلوک اور صلہ رحمی کا حکم ہے۔ خانہ جنگی، خون ریزی اور ایک دوسرے کو ستانے اور گھروں سے نکالنے کی ممانعت ہے۔   یہاں یہی کام باہر والے تو بعد میں کرتے ہیں  اپنے خونی رشتہ دار   پہلے کرتےہیں جب انہیں دعوت توحید دی جاتی ہے۔ حکم کی پاسداری تو دور رہ جاتا ہے ،اپنا بنایا ہوا خاندانی دستور بھی بھول جاتےہیں  ۔ اس  آیت میں  بھی درج  -لا- کا انکار کیا جاتا ہے۔

وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا
مت نکاح کرو مشرک عورتو ں سے  جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں۔۔۔الخ(البقرہ-221)

یہاں ایک مسلک والا دوسرے کو  کافر و مشرک سمجھنے کے باوجود  ان سے رشتہ داری کرتے ہیں ،بیٹی کا رشتہ دینے میں کوئی عار  محسوس نہیں کرتے۔ گویا اپنے عقیدہ و مسلک کے ساتھ بھی مخلص نہیں  ہیں ۔ بہرحال مشرکین سے رشتہ داری کرنے سے  اس  آیت میں  بھی درج  -لا-  کا انکار کیا  ہوتا ہے۔

لَا تَاْ كُلُوا الرِّبٰٓوا
سود نہ کھاؤ۔(آل عمران-130)

یہاں حکومتی سطح  تک ان گنت اقسام کے سود کھائے جارہے ہیں ۔سود پر قرضہ ، قسطوں کا کاروبار،بینک کا سود،فکس ڈپازٹ،جی پی فنڈ،لائف انشورنس، بولی والی کمیٹی،شیئر مارکیٹنگ وغیرہ  کا سود  کھا کر  اس  آیت میں  بھی درج -لا- کا انکار کیا  ہوتا ہے۔جبکہ سود کھانے والا ،کھلانے والا ،گواہ بننے والا، لکھنے والا سب برابر ہیں۔

وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰي
اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ (الانعام-164)

مگر یہاں میت کے لئے ثواب کی خاطر قرآن پڑھ کے ،نماز پڑھ کے،روزے رکھ کے،حج و عمرہ کرکے، قربانی میں انکا حصہ ڈال کے،  آیت کریمہ کا ورد کر کے ،فاتحہ پڑھ کے ،کوئی بھی باعث ثواب کام کر کے ثواب کو ایصال  کیا جاتا ہے ۔  اس  آیت میں  بھی درج -لا- کا انکار  ہوتا ہے۔

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً
اور نہ قریب جاؤ زنا کے بیشک یہ بے حیائی ہے۔(بنی اسرائیل-32)

مگر یہاں ڈنکے کی چوٹ  پر زنا کوحلال کئے بیٹھے ہیں ۔حلالے کے نام پر زنا ہو رہا ہے، متعہ کے نام پر زنا ہو رہا ہے۔تین طلاق دینے کے بعد بیوی حرام ہو جاتی ہے مگر اہلحدیثوں کے ہاں ایک طلاق کا فتوی دے کر زنا کروایا جا رہا ہے۔ یہ مذھبی طبقہ بھی زنا کا مرتکب ہے اس  آیت میں  بھی درج -لا- کا انکار ہوتا ہے۔ 

وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ وَاِنَّهٗ لَفِسْقٌ
اور نہ کھاؤ اسے جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا اور بیشک یہ فسق ہے۔(الانعام-121)

بس وہی حلال ہے جس پرخالص اللہ کا نام لیا جائے ،غیر اللہ کی نظر و نیاز حرام ہے ۔مگر یہاں سبیل امام حسین کی ،کونڈے اما م جعفر کے، گیارہویں پیران پیر کی ، بکرا فلاں دربار کا، کڑے اور چھلے سہون شریف کے، چاولوں کی دیگ داتا علی ہجویری کے نام کی  کھا کر اس آیت میں بھی درج -لا- کا انکار کیا جا رہا ہے۔ 

اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا 
بیشک مشرک ناپاک ہے۔اس سال کے بعد مسجد میں نہ پھٹکنے پائے۔ (التوبہ-28)

قبر چٹ بھی  حرم میں ،قبروں کا طواف کرنے والا بھی حرم میں ،قادیانی بھی حرم میں ،شیعہ بھی حرم میں،اہلحدیثوں کے ہاں دیوبندی  اور بریلوی دونوں مشرک ہیں مگر پھر بھی حرم میں  داخلے کی اجازت دے کر اس  آیت میں  بھی درج -لا- کا انکار کیا جاتاہے۔ 

لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ
کوئی نگاہ اسے نہیں پاسکتی مگر وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے۔(الانعام-103)

یہاں عقیدہ ہے کہ  اللہ کو دیکھا جاسکتا ہے اورخواب میں بھی  دیکھا بھی گیا ہے اور عالم بیداری میں بھی دیکھا گیا ہے۔ غنتیہ الطالبین (صفحہ نمبر 112) میں لکھا کہ نبی ﷺ نے اپنے رب کا گیارہ بار دیکھا ہے ۔ اس  آیت میں  بھی درج  -لا- کا انکار کیا جا رہا ہے۔ 

اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ

یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے پس تم شک کرنے والوں میں سے نہ ہوجانا(البقرہ-147)

کل قیامت کا دن ہوگا  اور دائمی جہنم میں داخلے کا سبب بیان کرتا ہے کہ

اِنَّهُمْ كَانُوْٓا اِذَا قِيْلَ لَهُمْ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ ۙ يَسْتَكْبِرُوْنَ اصل وجہ کلمے کے -لا- کا انکار۔

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں اپنی کتاب کو صحیح معنوں میں سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی  قوفیق دے ۔آمین

وماعلینا الاالبلاغ المبین