|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

دعویٰ: دعویٰ یا موضوع ِسورۃ سے مراد سورۃ کا مرکزی عنوان ہے ۔دعوے کو ثابت کرنے کے لیے سورۃ ہی میں مختلف دلائل دئیے گئے ہوتے ہیں ۔

دلیل: دلیل اس بیان کو کہتے ہیں جس سے دعویٰ ثابت کیا جائے۔دلائل کی پانچ اقسام ہیں۔(پہلی)دلیل عقلی محض (دوسری)دلیل عقلی علی سبیل الاعتراف من الخصم (تیسری) دلیل عقلی ازمثال (چوتھی) دلیل نقلی (پانچویں) دلیل وحی

!دلیل عقلی: دلیل عقلی اس دلیل کو کہتے ہیں جسکا تعلق عقل سے ہو۔  مثلاً
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝  الَّذِىْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَاۗءَ بِنَاۗءً  وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝

اے لوگو !عبادت کرو اپنے رب کی جس نے تم کو پیدا فرمایا اور ان لوگوں کو بھی پیدا فرمایا جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔جس نے بنایا تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت، اور اتارا آسمان سے پانی، پھر نکال دیا اس کے ذریعہ پھلوں سے تمہارے لیے رزق، لہٰذا مت بناؤ اللہ کے لیے کوئی ہمسر، حالانکہ تم جانتے ہو ۔ (البقرہ-21تا 22) الَّذِىْ خَلَقَكُمْ تا مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ تک دلیل عقلی ہے۔ یعنی جب تم جانتے ہو یہ سارے کام کرنے والا اللہ ہے تو پھر عبادت میں کسی کو اسکا شریک نہ بناؤ۔

دلیل عقلی علی سبیل الاعتراف من الخصم: یہ وہ دلیل ہے جس کو  منکرین سے استفہام کے طور پر بیان کیا جائے اور مخالف کا تسلیمی جواب بیان کیا جائے۔ مثلاً
قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ يُّخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ فَسَيَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ۝
ان سے پوچھو کہ تمہیں آسمان اور زمین میں رزق کون دیتا ہے ؟ یا کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ؟ بےجان سے جاندار کون پیدا کرتا ہے اور جاندار سے بےجان کون پیدا کرتا ہے ؟ اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے ؟ جھٹ کہہ دیں گے کہ ” اللہ “ تو کہو پھر تم اللہ سے ڈرتے کیوں نہیں ؟ (یونس-31)

!دلیل از مثال: یہ وہ دلیل عقلی ہے جس میں دعویٰ کو مثال کے زریعے بیان کیا جاتا ہے۔ مثلاً

مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِيَاۗءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ ښ اِتَّخَذَتْ بَيْتًا ۭ وَاِنَّ اَوْهَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ ۝
جن لوگوں نے اللہ کے سوا اوروں کو کارساز بنا رکھا ہے ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک طرح کا گھر بناتی ہے اور کچھ شک نہیں کہ سب سے کمزور گھر مکڑی کا ہوتا ہے۔ کاش یہ اس بات کو جانتے۔(العنکبوت-41)

دلیل نقلی: جب دعویٰ کے اثبات کے لئے کوئی نقل پیش کی جائے تو وہ دلیل نقلی کہلائے گی۔دلیل نقلی کی سات اقسام ہیں ۔

گذشتہ آسمانی کتب سے *

  انبیاء  سابقین سے اجمالاً * 

انبیاء سابقین سے تفصیلاً نام بنام * 

کتب سابقہ سے علماء سے جو دور نبوی ﷺ میں موجود تھے *

  جنات سے *

فرشتوں سے *

پرندوں سے *

پہلی: دلیل عقلی از کتب سابقہ: مثلاً!  وَاٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ وَجَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِيْ وَكِيْلًا

ہم نے اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا تھا، اس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو کارساز نہ بناؤ۔(بنی اسرائیل-2) یہ تورات سے دلیل نقلی ہے۔

دوسری: دلیل نقلی از انبیاء اجمالاً: مثلاً!  وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ  ۝  اور جو پیغمبر ہم نےآپ سے پہلے بھیجے تھے ان کی طرف یہی وحی بھیجی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری ہی عبادت کرو۔(الانبیاء-25)

تیسری: دلیل نقلی از ابراہیم ؑ تفصیلاً: مثلاً!   وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِبْرٰهِيْمَ ڛ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا ۝اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ يٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِيْ عَنْكَ شَـيْــــــًٔــا۝

اور آپ اس کتاب میں ابراہیم کا ذکر کیجیے، بیشک وہ سچے نبی تھے۔ جب انہوں نے اپنے باپ سے کہا : اے ابا جان! آپ کیوں ایسی چیزوں عبادت کرتے ہیں، جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ ذرہ برابر کام آسکتی ہیں۔(مریم- 41تا42)

چوتھی: دلیل نقلی از علماء اہل کتاب: مثلاً!  وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَمَنْ يُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْھِمْ خٰشِعِيْنَ لِلّٰهِ ۙ لَا يَشْتَرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ثَـمَنًا قَلِيْلًا
اور بیشک اہل کتاب میں سے ایسے بھی ہیں جو ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور اس چیز پر بھی جو تم پر اتاری گئی ہے اور ان پر اتاری گئی ہے اللہ سے ڈرتے ہوئے وہ اللہ کی آیتوں کا حقیر قیمت پر سودا نہیں کرتے۔(آل عمران-199) یہ دلیل ان علماء سے لی گئی جو سابقہ کتب کا علم رکھتے تھے اور اسلام قبول کر چکے تھے۔

پانچویں: دلیل از جنات: مثلاً!  قُلْ اُوْحِيَ اِلَيَّ اَنَّهُ اسْتَـمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْٓا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا   ۝ يَّهْدِيْٓ اِلَى الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِهٖ   ۭ وَلَنْ نُّشْرِكَ بِرَبِّنَآ اَحَدًا  ۝
لوگوں سے کہہ دو کہ میرے پاس وحی آئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے اس کتاب کو سنا تو کہنے لگے کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا جو بھلائی کا رستہ بتاتا ہے سو ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گے ۔(جن-1تا2) یہ بطور دلیل جنات کی ایک جماعت سے نقل پیش کی گئی۔

چھٹی: دلیل از ملائکہ: مثلاً!  شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاۗىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ ۭ
اللہ نے خود شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے اور (یہی شہادت) فرشتوں اور اہل علم نے بھی دی ہے وہ(اہل علم جو) انصاف پر قائم ہیں۔(آل عمران-18):

:ساتویں: دلیل نقلی از طیور

 اَلَّا يَسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ ۝اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ۝
ھد ھد نے کہا:اور کیوں نہیں وہ اللہ کو سجدہ کرتے جو آسمانوں اور زمین میں چھپی چیزوں کو ظاہر کردیتا ہے اور تمہارے پوشیدہ اور ظاہر اعمال کو جانتا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔(النمل-26)

دلیل وحی: کبھی ایسا ہوتا ہے کہ  دعویٰ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کو اعلان کرنے کا حکم بھی ملتا ہے ،یعنی جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اپنی مرضی و رائے سے نہیں کہہ رہا بلکہ مجھے اللہ کی طرف سے بذریعہ وحی یہ حکم ملا ہے۔

مثلاً!  قُلْ اِنِّىْ نُهِيْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَمَّا جَاۗءَنِيَ الْبَيِّنٰتُ مِنْ رَّبِّيْ ۡ وَاُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ  ۝

اے محمد !(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہہ دو کہ مجھے اس بات سے منع کردیا گیا ہے کہ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ان کی پوجا کروں جب کہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے کھلی دلیلیں آچکی ہیں اور مجھ کو یہ حکم ہوا ہے کہ رب العٰلمین ہی کا فرمانبردا ررہوں۔(مومن-66)

تنویر دعویٰ: بعض دفعہ منکرین سے دعویٰ کا ایک حصہ تسلیم کرا کر اس کے باقی حصے نہایت وضاحت سے انکے سامنے بیان کئے جاتے ہیں جن کی وہ صراحتہً تردید نہیں کر سکتے۔

مثلاً!  وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيْزُ الْعَلِيْمُ ۝الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا وَّجَعَلَ لَكُمْ فِيْهَا سُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ  ۝وَالَّذِيْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءًۢ بِقَدَرٍ ۚ فَاَنْشَرْنَا بِهٖ بَلْدَةً مَّيْتًا ۚ كَذٰلِكَ تُخْـرَجُوْنَ  ۝وَالَّذِيْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَالْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَ  ۝

اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہیں گے کہ ان کو غالب اور علم والے اللہ نے پیدا کیا ہے ۔جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھو نا بنایا اور اس میں تمہارے لیے رستے بنائے تاکہ تم راہ معلوم کرو۔ اور جس نے ایک اندازے کے ساتھ آسمان سے پانی نازل کیا پھر ہم نے اس سے مردہ شہر کو زندہ کیا، اسی طرح تم بھی زمین سے نکالے جاؤ گے۔اور جس نے تمام قسم کے حیوانات پیدا کئے، تمہارے لیے کشتیاں اور چار پائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔(الزخرف-9تا 12) منکرین نے صراحتہ  ًٍپہلے یہ بات مان کی کہ وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ ۔۔الخ  زمین و آسمان کا خالق اللہ ہی ہے۔اس کے بعد الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا دعوی کی تنویر فرمادی یعنی دعویٰ مذکورہ پر مزید روشنی ڈالی تاکہ منکرین اسے خاموشی سے سن لیں۔

تخویف: دعوی منوانے کے لئے قرآن میں جا بجا اللہ کی گرفت اور اسکے عذاب سے ڈرایا گیا ہے اسے تخویف کہتے ہیں ۔تخویف کی دو اقسام ہیں تخویف اخروی اورتخویف دنیوی

مثال تخویف دنیوی: وَكَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ هَلْ تُـحِسُّ مِنْهُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزًا
اور ہم نے ان سے پہلے بہت سے گروہوں کو ہلاک کردیا ہے بھلا آپ ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یا کہیں ان کی بھنک سنتے ہو۔(مریم -98)

مثال تخویف اخروی:  وَّنَسُوْقُ الْمُجْرِمِيْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًا ۝
اورہم  مجرموں کوجہنم کی طرف پیاسے ہانک کرلے جائیں گے۔(مریم -86)

تبشیر یا بشارت: تخویف کے مقابلے میں تبشیر ہے یعنی ماننے والوں کے لئے خوشخبری کا بیان، اسکی بھی دو قسمیں ہیں تبشیر دنیوی اور تبشیر اخروی۔

مثال تبشیر دنیوی: وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ ۝
ہم نے زبور میں نصحیت کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہی ہونگے۔(الانبیاء-105)

مثال تبشیر اخروی: اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا ۝
بلاشبہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے ان کی بطور مہمانی فردوس کے باغ ہیں ۔(الکھف-107)

شکویٰ: منکرین دعویٰ مقابلے میں دعویٰ پیش کرنے والوں کو مختلف طریقوں سے عاجز کرنے کی کوشش کرتے ہیں  ایسے لوگوں کے حالات پر اللہ کی طرف سے شکایت کی جاتی ہے اسے شکوی کہتے ہیں ۔شکوی ٰ کی پہچان یہ ہے کہ اس کی ابتداء میں لفظ  قال یا قالوا ہوتا ہے۔

مثلاً ! وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ يَنْۢبُوْعًا ۝اَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْهٰرَ خِلٰلَهَا تَفْجِيْرًا ۝ۙاَوْ تُسْقِطَ السَّمَاۗءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِيَ بِاللّٰهِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ قَبِيْلًا ۝اَوْ يَكُوْنَ لَكَ بَيْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰى فِي السَّمَاۗءِ ۭ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا ۝
اور کہنے لگے کہ ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ آپ ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری نہ کردیں۔یا آپ کے لیے کھجور اور انگور کا باغ پیدا ہوجائے اور آپ اس کے بیچ میں نہریں بہا دیں۔یا جیسا آپ کہا کرتے ہو ہم پر آسمان سے ٹکڑے لا گراؤ یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لے آؤ ۔یا آپ کا سونے کا گھر ہو یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں، پھر بھی ہم ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ کوئی کتاب ہمارے لیے لے کر نہ آئیں ایسی کتاب جسے ہم پڑھ بھی لیں۔ فرمادیں کہ میرا رب پاک ہے میں تو صرف ایک پیغام پہنچانے والا بشر ہوں۔(بنی اسرائیل 90تا93) یہاں آخری حصے میں شکویٰ کا جواب بھی مذکور ہے۔

زجر: بعض اوقات منکرین دعویٰ کو انکی ناجائز حرکات اور غیر معقول مطالبات پر جھڑکا جاتا ہے اسے زجر کہتے ہیں۔مثلاً!   مِنَ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا  ۭكُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ  ۝
اور نہ ان لوگوں میں ہونا جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور خود فرقے فرقے ہوگئے، ہر گروہ اسی پر مگن ہے جو اس کے پاس ہے۔(الروم-32)
كُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ یہ زجر ہے۔ بعض دفعہ انبیاء کو بھی کسی غیر موزوں فعل کے ارتکاب پر زجر کیا جاتا ہے۔جیسا کہ نوحؑ کو بیٹے کی درخواست پر فرمایا قَالَ يٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ۚ اِنَّهٗ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ  فَلَا تَسْـــَٔـلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۭ اِنِّىْٓ اَعِظُكَ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ ۝
 اللہ نے فرمایا کہ اے نوح ! وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے اس کے اعمال اچھے نہیں تو مجھ سے مت سوال کر جس کا تمہیں علم نہیں اور میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ نہ ہوجانا نادانوں میں سے (ھود-46) شکویٰ اور زجر میں خفیف سا فرق ہے جو ظاہر کر دیا گیا ہے۔

تسلّی: دعوت توحید کے رد میں مصیبتیں اور تکلیفیں آتی ہیں تو اللہ نبی کو اور اہل ایمان کو تسلی دیتے ہیں ۔
مثلاً!  وَاِنْ يُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ ۭ وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ۝
اور اے پیغمبر اگر یہ لوگ تم کو جھٹلائیں تو تم سے پہلے بھی پیغمبر جھٹلائے گئے ہیں اور سب کام اللہ ہی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ (فاطر-4)

وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ ۝فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ ۝وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ ۝
اور ہم جانتے ہیں کہ ان باتوں سے آپ کا دل تنگ ہوتا ہے۔ تو آپ اپنے رب کی تسبیح کرتے رہیں اور اس کی خوبیاں بیان کرتے رہیں اور سجدہ کرنے والوں میں داخل رہیں۔ اور اپنے رب کی عبادت کیے جائیں یہاں تک کہ آپ کی موت کا وقت آجائے۔(الحجر-97تا99)

اندماج یا ادماج: قرآن میں عموماً کسی مثال یا واقع کو پوری تفصیل سے بیان نہیں کیا گیا بلکہ اکثر مقصودی حصے کو صراحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا اور غیر مقصودی حصے کو حذف کر دیا گیا ،کیونکہ وہ معمولی غور و فکر سے سمجھ میں آسکتے ہیں۔اسے اندماج یا ادماج کہتے ہیں  مثلاً!  مَثَلُھُمْ كَمَثَلِ الَّذِى اسْـتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّآ اَضَاۗءَتْ مَا حَوْلَهٗ ذَھَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَتَرَكَھُمْ فِىْ ظُلُمٰتٍ لَّا يُبْصِرُوْنَ ۝
ان کی مثال تو ایسی ہے کسی نے آگ جلائی پس جب آگ نے ان کے اردگرد کو روشن کردیا تو اللہ نے ان کا نور بصارت سلب کرلیا اور انہیں اس حال میں چھوڑ دیا کہ تاریکیوں میں انہیں کچھ نظر نہیں آتا ۔ (بقرہ-17)
اس آیت میں اندماج ہے اور اسْـتَوْقَدَ نَارًا کے بعد فیہ رجال قاعدوں محذوف ہے۔ اس کے بعد  بِنُوْرِهِمْ کی ضمیر جمع اس پر دلالت کرتی ہے۔

ادخال الہیٰ: قرآن میں  قصص وغیرہ  کے سلسلے میں  جہاں کہیں کسی کا کلام نقل کیا جارہا ہوتو بعض دفعہ اللہ کا ارشاد آجاتا ہے جو اس قصے کا حصہ نہیں ہوتا مگر اس سے متعل ضرور ہوتا ہے۔اسے ادخال الہیٰ کہتے ہیں ۔
مثلاً!   وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ اِيْمَانَهٗٓ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ يَّقُوْلَ رَبِّيَ اللّٰهُ وَقَدْ جَاۗءَكُمْ بِالْبَيِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْ ۭ وَاِنْ يَّكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهٗ ۚ وَاِنْ يَّكُ صَادِقًا يُّصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِيْ يَعِدُكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَايَهْدِيْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ ۝
اور فرعون کے لوگوں میں سے ایک مومن شخص جو اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھتا تھا کہنے لگا : کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانیاں بھی لے کر آیا ہے۔ اور اگر وہ جھوٹا ہوگا تو اس کے جھوٹ کا نقصان اسی کو ہوگا۔ اگر سچا ہوگا تو کوئی سا عذاب جس کا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے تم پر ضرور آکر رہے گا۔ بیشک اللہ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزر جانے والا اور کذاب ہو۔(مومن-28)
مرد مومن کی یہ تقریر فرعون کے دربار میں تھی جو موسیؑ پرایمان لاچکا تھااس کے بعد اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ ادخال الہیٰ ہے اور اس کا مقصد اس سوال مقدر کا جواب ہے(یعنی وہ سوال جو یہاں درج نہ ہو مگر اسکا جواب درج ہو) سوال یہ ہے کہ کیا اس شخص کی تقریر سے فرعون کو کوئی فائدہ ہوا؟ اس کے جواب میں فرمایا اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ بیشک اللہ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزر جانے والا اور کذاب ہو۔ 

   وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین