|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

کیا کوئی انسان “قطب” بن سکتا ہے؟

قطب” بننے کا عقیدہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں، یہ صوفیانہ اصطلاح ہے جو باطل تصورات اور شرک اور غلو پر مبنی ہے، اور توحیدِ خالص کے منافی ہے۔

صوفی سلسلوں میں “قطب” اُس شخصیت کو کہتے ہیں جو کائنات کا باطنی انتظام سنبھالے ہوئے ہو بعض صوفی عقائد میں قطب کو “زمین کی سانس” یا “نظامِ عالم کا مرکز” سمجھا جاتا ہے کہا جاتا ہے کہ “قطب” ہر دور میں ایک ہوتا ہے، جس کے ماتحت ابدال، اوتاد اور نجباء ہوتے ہیں۔ یہ سب قرآن و حدیث سے ماوراء اور غلو پر مبنی تصورات ہیں۔

اللہ نے واضح فرمایا کہ
ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ۖ هَلْ مِن شُرَكَآئِكُم مَّن يَفْعَلُ مِن ذَٰلِكُم مِّن شَىْءٍ ۚ
“اللہ وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر رزق دیا، پھر تمہیں مارے گا اور زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی بھی ان میں سے کچھ کر سکتا ہے؟”
(سورۃ الروم: 40)

اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ کائنات کے نظم و نسق، زندگی و موت اور رزق کا مالک صرف اللہ ہے۔ کسی انسان کو “قطبِ عالم” یا نظامِ کائنات کا نگہبان سمجھنا، شرکیہ نظریہ ہے۔ نبی ﷺ نے خود کو بھی کائناتی نظام میں کوئی باطنی قوت یا نگرانی والا نہ کہا، تو کسی اور کو یہ درجہ نہ دیا۔ لہذا یہ توحیدِ ربوبیت کی نفی ہے۔

صحابہؓ نے کبھی ابوبکرؓ، عمرؓ، علیؓ یا کسی ولی کو “قطب” یا “روحانی نظام کا مرکز” نہیں کہا صحابہؓ کی تعلیم یہی تھی کہ ہر چیز اللہ کے فیصلے سے ہے، کسی انسان کی باطنی رسائی سے نہیں۔

“قطب” جیسی اصطلاحات دین میں گھڑی ہوئی ہیں، جن کا نہ قرآن میں ذکر ہے، نہ حدیث میں، نہ صحابہؓ کے عمل میں۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا:

وَتَوَكَّلْ عَلَى ٱلْحَىِّ ٱلَّذِى لَا يَمُوتُ
“اور توکل کرو اس زندہ پر جو کبھی نہیں مرے گا”
(سورۃ الفرقان: 58)

قطب، ابدال، یا پیر سب فانی انسان ہیں، جو مر جاتے ہیں، اور نہ کسی کو غیب کا علم ہے، نہ کائنات کی طاقت۔ لہٰذا مسلمان کو چاہیے کہ غوث، قطب و ابدال جیسے باطنی و غیبی نظریات کو رد کرے، اور صرف اللہ پر ایمان، بھروسا رکھے۔ یہی خالص توحید ہے، اور یہی نجات کا راستہ۔

مزید سوال کریں / اپنی رائے دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔