نہیں، مشائخ کی قبروں کو “بابِ حاجات” یعنی حاجت روائی کا دروازہ سمجھنا قرآن و سنت کے خلاف اور شرک ہے۔ اسلام میں حاجت روائی صرف اللہ سے مانگنے کا حکم دیا گیا ہے، کسی قبر، ولی یا بزرگ کو حاجت روا سمجھنا توحید کی نفی ہے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ
اور تمہارے رب نے فرمایا: مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔
(غافر 60)
اللہ نے دعا کو صرف اپنی ذات سے وابستہ کیا، کسی ولی یا قبر کو “باب حاجت” کہنا اس حکم کی مخالفت ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا
إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ
جب مانگو تو اللہ سے مانگو، اور جب مدد چاہو تو اللہ سے مدد چاہو۔
(جامع الترمذی، حدیث 2516)
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ نہ نبی، نہ ولی، نہ کوئی قبر “باب حاجت” ہے، بلکہ حاجت روا اور مشکل کشا صرف اللہ ہے۔
لہٰذا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ قبر پر جانا، دعا مانگنا یا حاجت رکھنا شرک ہے، کیونکہ مردہ نہ سنتا ہے، نہ جواب دیتا ہے، نہ مدد کر سکتا ہے۔ توحید یہی ہے کہ حاجت صرف اللہ کے دربار میں رکھی جائے۔