اللہ تعالیٰ نے دعا اور وسیلہ کے بارے میں قرآن میں بالکل واضح ہدایت دی ہے۔ دعا صرف اللہ سے کرنی ہے، کیونکہ حاجت روائی اور مشکل کشائی کی طاقت صرف اسی کے پاس ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ
اور تمہارے رب نے فرمایا مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا
(غافر: 60)
اسی طرح وسیلہ کے بارے میں فرمایا
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو
(المائدہ: 35)
یہاں وسیلے کا مطلب ہے کہ انسان اللہ کے قریب ہونے کے لیے ایمان، عمل صالح، دعا، صدقہ اور نیک اعمال اختیار کرے۔
نبی کریم ﷺ نے خود ہمیں یہی تعلیم دی کہ دعا میں اللہ کے نام اور اپنے نیک عمل کو وسیلہ بنایا جائے۔ جیسا کہ تین آدمیوں والی مشہور حدیث میں ہر ایک نے اپنا نیک عمل پیش کیا اور اللہ نے ان کی دعا قبول فرمائی
(صحیح بخاری 5974، صحیح مسلم 2743)۔
لیکن مردوں یا اولیاء کے وسیلے سے دعا کرنا قرآن و سنت میں ثابت نہیں۔ نہ صحابہؓ نے نبی ﷺ کی وفات کے بعد آپ کو پکارا، نہ اولیاء یا شہداء کو۔ بلکہ سیدنا عمرؓ نے قحط کے وقت نبی ﷺ کی قبر کے پاس دعا کرنے کے بجائے سیدنا عباسؓ کی دعا کروائی۔
(صحیح بخاری 1010)
زندہ نیک انسان سے دعا کی درخواست کرنا جائز ہے۔ اپنے نیک اعمال یا اللہ کے ناموں کو وسیلہ بنانا سنت ہے۔ مردوں یا قبروں کے وسیلے سے دعا کرنا جائز نہیں، یہ توحید کے خلاف اور شرکیہ عمل ہے، کیونکہ دعا صرف اللہ کے لیے خاص ہے۔