|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

کیا فتاویٰ عقیدہ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں؟

جی بالکل، فتاویٰ عقیدے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر فتویٰ قرآن و سنت کے مطابق ہو تو وہ صحیح عقیدہ کی راہنمائی کرتا ہے، لیکن اگر فتویٰ خواہشات یا باطل دلائل پر مبنی ہو تو وہ انسان کو بدعقیدگی اور گمراہی میں ڈال دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
پس اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ ذکر سے پوچھ لو۔
(النحل: 43)

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پوچھنے اور فتویٰ لینے کا مقصد دین کی صحیح تعلیم تک پہنچنا ہے، نہ کہ اندھی تقلید یا گمراہی۔

لہٰذا اگر فتوی دینے والوں کا فتویٰ قرآن و حدیث سے ہٹا ہوا ہو، تو وہ عقیدہ کو بگاڑ دیتا ہے جیسا کہ آج کئی فرقوں میں ہوتا ہے، اور اگر وحی کے مطابق ہو تو ایمان کو مضبوط کرتا ہے۔ فتویٰ دراصل صرف سوال کا جواب نہیں ہوتا، بلکہ فتوی دینے والے کے اپنے عقیدے اور فہمِ دین کا عکس بھی ہوتا ہے۔ اگر کسی مفتی کا عقیدہ صحیح اور توحید پر مبنی ہے تو اس کے فتاویٰ میں وہی جھلکے گا، اور اگر اس کا عقیدہ بدعت یا شرک کی طرف مائل ہے تو اس کے فتاویٰ اسی رنگ میں رنگے ہوں گے۔

قرآن کہتا ہے کہ
قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ
کہہ دو! ہر ایک اپنے مزاج (عقیدے و طریقے) کے مطابق عمل کرتا ہے۔
(الإسراء: 84)

اسی طرح نبی ﷺ نے خبردار فرمایا
وإنَّما أخافُ على أُمَّتي الأئمَّةَ المضلِّينَ
میں اپنی امت پر سب سے زیادہ گمراہ کرنے والے پیشواؤں سے ڈرتا ہوں۔
(ابوداؤد، 2859)

یعنی اگر رہنما یا مفتی کا عقیدہ ٹیڑھا ہے تو اس کے فتاویٰ بھی ٹیڑھے ہوں گے اور لوگ گمراہی کی طرف جائیں گے۔ اس کے برعکس اگر عقیدہ صاف ہے تو فتوے بھی توحید اور سنت کی روشنی میں ہوں گے۔ فتویٰ خود فتوی دینے والے کے عقیدے کا آئینہ دار ہوتا ہے۔

مزید سوال کریں / اپنی رائے دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔