قرآن و سنت کی روشنی میں خلافت کا معاملہ اللہ کے حکم اور نبی ﷺ کی رہنمائی کے مطابق ہوا ہے، اور اس پر صحابہ کرامؓ کا اجماع حجت ہے۔ خلافتِ راشدہ میں سب سے پہلے ابوبکر صدیقؓ کو خلیفہ بنایا گیا، اور یہ صحابہؓ کے اتفاق سے ہوا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ
اور سبقت کرنے والے مہاجر اور انصار اور وہ لوگ جو ان کے نقشِ قدم پر احسان کے ساتھ چلیں، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
(التوبہ 100)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا پھر کسی وقت آنا اس عورت نے عرض کیا اگر میں آؤں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہ پاؤں (یعنی وفات فرما جائیں تو کیا کروں) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تو مجھ کو نہ پائے تو ابوبکر کے پاس چلی جانا۔
(صحیح بخاری:حدیث نمبر3659)
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ خلافت کا آغاز ابوبکر صدیقؓ سے ہونا اللہ اور رسول ﷺ کی ہدایت کے مطابق تھا۔ علیؓ بھی اس پر راضی تھے اور انہوں نے خلافتِ ابوبکرؓ کی بیعت کی۔ لہٰذا یہ عقیدہ رکھنا کہ علیؓ کو پہلا خلیفہ ہونا چاہیے تھا، یہ اہلِ تشیع کا اجماع صحابہؓ کے خلاف نظریہ ہے۔