اسلام میں ثواب صرف وہ عمل ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے مشروع کیا ہو۔ عرس منانا یا اس میں لنگر کھانا دراصل قبروں اور اولیاء کی نسبت سے ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے، جبکہ اللہ نے فرمایا
أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ ٱلدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنۢ بِهِ ٱللَّهُ
کیا ان کے ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین میں وہ چیز مشروع کر دی جو اللہ نے اجازت نہیں دی؟
(الشورى 21)
نبی ﷺ نے دین میں نئی بدعت ایجاد کرنے سے سختی کے ساتھ روکا اور فرمایا
من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد
جس نے ہمارے دین میں ایسی چیز نکالی جو اس میں سے نہیں تو وہ مردود ہے۔
(صحیح بخاری 2697، صحیح مسلم 1718)
رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے کبھی نہ تو عرس منایا اور نہ اس کے لنگر کو ثواب سمجھا۔ وہ صرف صدقہ و خیرات اللہ کی رضا کے لئے کرتے تھے، کسی قبر یا بزرگ کے نام پر نہیں۔
آج لوگ عرس میں لنگر کو نیکی سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ دین میں اضافہ اور شرک و بدعت والا عمل ہے۔ اصل توحید یہ ہے کہ کھانا کھلانا اور صدقہ کرنا صرف اللہ کی رضا کے لئے ہو، کسی قبر یا بزرگ کی نسبت سے نہیں۔