بیعت کا تصور قرآن و سنت میں موجود ہے لیکن اس کی اصل وہی ہے جو نبی ﷺ اور صحابہؓ کے دور میں تھی، یعنی اطاعتِ رسول ﷺ اور جہاد میں جان و مال قربان کرنے پر عہد کرنا۔ آج کل جو سلسلوں اور پیر پرستی کے نام پر بیعت کی جاتی ہے، وہ شریعت میں ثابت نہیں۔
قرآن میں فرمایا گیا کہ
إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ ۚ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ
یقیناً جو لوگ آپ ﷺ سے بیعت کرتے ہیں وہ دراصل اللہ سے بیعت کرتے ہیں، اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔
(الفتح 10)
یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بیعت کا تعلق نبی ﷺ سے تھا، اور وہ اطاعتِ دین و جہاد کے لیے تھی۔
نبی ﷺ نے فرمایا
من مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية
جو شخص اس حال میں مرے کہ اس کی گردن میں بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔
(صحیح مسلم 1851)
یعنی بیعت خلیفہ وقت جو مسلمانوں کی اجتماعی قیادت کے ساتھ ہے، تاکہ امت ایک نظم میں رہے۔
لہٰذا بیعت کا حکم شریعت میں صرف نبی ﷺ یا خلیفہ کے ساتھ ہے۔ اولیاء، پیروں یا خانقاہوں کی بیعت کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث میں نہیں، موجودہ پیر پرستی اور سلسلہ وار بیعت دین کا حصہ نہیں بلکہ بدعت ہے۔