نہیں، صرف عقیدہ زبانی اقرار یا دعویٰ کافی نہیں، نجات کے لیے ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ بھی لازم ہیں۔
جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
زمانے کی قسم! بے شک انسان خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی وصیت کی۔
(العصر 1-3)
یہاں اللہ نے صرف عقیدہ (ایمان) پر بات ختم نہیں کی، بلکہ ساتھ عمل صالح اور دعوت و صبر بھی شرط قرار دی۔
نبی ﷺ نے فرمایا
لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ
زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو اس وقت کامل مؤمن نہیں رہتا۔
(صحیح بخاری 2475، صحیح مسلم 57)
اس سے معلوم ہوا کہ عقیدہ اگرچہ بنیاد ہے، لیکن اس کے بغیر اعمال نہ ہوں تو نجات نہیں۔