اہل بیت بھی صحابہ میں داخل ہیں، ان کو صحابیت سے الگ کوئی مستقل درجہ دینا درست نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ کے بارے میں فرمایا
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ
اور جو سبقت کرنے والے ہیں، مہاجرین اور انصار میں سے، اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کی پیروی کرتے ہیں، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
(التوبہ 100)
یہ آیت ثابت کرتی ہے کہ فضیلت کا معیار سبقت فی الایمان اور اتباع ہے، نہ کہ محض نسبی تعلق سے۔ اہل بیت رضی اللہ عنہم چونکہ صحابہ بھی ہیں اور ایمان و عمل میں سبقت کرنے والے بھی، اس لیے ان کا مقام بہت بلند ہے، لیکن صحابہ سے ان کو جدا کرنا درست نہیں۔
نبی ﷺ نے فرمایا
لا تسبوا أصحابي، فلو أن أحدكم أنفق مثل أُحدٍ ذهبًا ما بلغ مُدّ أحدهم ولا نصيفه
میرے صحابہ کو برا نہ کہو، اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کرے تو ان کے ایک مد یا نصف مد کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا۔
(صحیح بخاری، حدیث 3673)
لہٰذا اہل بیت کا احترام ایمان کا حصہ ہے، لیکن ان کو دیگر صحابہ سے کاٹ کر الگ فضیلت دینا درست نہیں، بلکہ سب کو مجموعی طور پر اللہ کے برگزیدہ صحابہ ماننا ہی صحیح عقیدہ ہے۔